دانش راجپوت
سندھوکی تہذیب وثقافت
کب تک اپنا وجود برقرار رکھ پائے گی؟
قدرتی وسائل سے مالامال دنیا کا ساتواں بڑا سندھوڈیلٹااورتمر کے جنگلات تباہی کے کنارے پرپہنچ گئے
سندھ ان گنت قدرتی وسائل سے مالا مال صوبہ ہے۔ اس دھرتی پربہنے والے دریائے سندھ کا شمار دنیا کے بڑے بڑے دریاو ¿ں میں کیا جاتا ہے۔ کیلاش کی جھیل مانسہرہ کے برفانی پانی سے نکلنے والا یہ عظیم دریا ایک چھوٹے سے مقام ”دم چک“ سے لداخ میں داخل ہوجاتا ہے اور یہاں سے سینکڑوں میلوں کا سفر طے کرتے ہوئے بحیرہ عرب سے ہم آغوش ہوتا ہے۔ بحیرہ عرب کی شفاف نیلی موجوں اور دریائے سندھ کے گدلے پانی کا گزشتہ ہزار برسوں سے ملاپ ہی اصل میں اس سرزمین کی تشکیل کا جواز بنا جسے آج ہم ” انڈس ڈیلٹا“ کہتے ہیں۔ محققین کے مطابق ڈھائی ہزار سال قبل جب ایک یونانی مورخ ہیروڈوٹس دریائے نیل کے اس ان
تہائی اختتامی حصے تک پہنچا جہاں وہ بحیرہ روم میں گرتا تھا وہاں اس یونانی مورخ نے دیکھا کہ دریا کا پانی تو سمندر میں گر جاتا ہے لیکن اس کے ساتھ آنے والی ریت و مٹی بدستور ایک قطعہ اراضی تشکیل کرتی چلی جارہی ہے۔ اس ابھرتی زمین کا بغور مشاہدہ کیا گیا تو اس کی ہیبت تکون پائی۔ تکون یا مثلث کو رومن زبان میں ”ڈیلٹا“ کہا جاتا ہے۔ لہذا ہیروڈوٹس نے دریائے نیل کے ختم ہونے والے دہانے سے بحیرہ روم کی جانب بڑھتے ہوئے اس مثلث نما قطعہ اراضی کو ’ڈیلٹا‘ کا نام دے دیا۔ یوں دریاو ¿ں کے اختتامی دہانوں پر تخلیق پانے والی یہ نئی زمین رفتہ رفتہ پوری دنیا میں ہی ڈیلٹا کے اصطلاحی نام سے مشہور ہوگئی۔ آج کرہ ارض کا کم وبیش دوفی صد رقبہ انہی ڈیلٹائی علاقوں پرمشتمل ہے۔ سندھو کے ڈیلٹا کو دنیا بھر میں ساتویں نمبر پر نمایاں مقام حاصل ہے۔ تاریخ دانوں اور مورخین کا ماننا ہے کہ دریائے سندھ کے کناروں نے ہمیشہ نئی تہذیبوں کو جنم دیا اور اس کے پانی نے ہمیشہ تہذیبوں اورثقافتوں کی آبیاری کی۔ دریائے سندھ نے نہ صرف اپنی راہ گزر کے کناروں بلکہ اختتام پربھی ایک شاندار تہذیب کوجنم دیا تھا۔ اس تہذیب نے وہاں جنم لیا جہاں دریاءکے گدلے پانی کے بپھرے ریلوں نے سمندر کی نیلی موجوں کومستقل پیچھے دھکیلا اوراپنے ساتھ لائی ہوئی ریت ومٹی کے چھوٹے چھوٹے ذرات کو ایک دوسرے سے پیوست کرکے اس سنگم پرہزار برس کی ریاضت سے زمین تشکیل دی۔دریائے سندھ نے سمندر اوراپنی تخلیق کردہ دلدلی زمین کے درمیان تمر کے گھنے جنگلات کی باڑ باندھ کرحد قائم کی اورسمندر ی کناروں کومچھلیوں کی دولت کابیش بہا خزانہ عطا کیا۔ اس طرح سندھوڈیلٹا کی زرخیز زمین پرایک نئی تہذیب کاجنم ہوا جسے ہم ( تمرتہذیب یامینگرووز سویلائزیشن)کہہ سکتے ہیں۔
دریائے سندھ کے ڈیلٹا کی ہی یہ عطا ہے کہ دنیا بھر میں اس نے پاکستان کوتمر کے ساحلی ودلدلی جنگلات کاحامل 14واں بڑا ملک قرار دلوایا۔دریائے سندھ کے ڈیلٹا کاعروج بے مثال تھا جس کا ڈنکا لاکھوں ایکڑ اراضی پرلہلہاتی فصلوں،خوشحال چہروں کی دمکتی آنکھوں،ساحل پرتاجروں اور جہازوں کے ہجوم کی صورت مدتوں جہاں بھر میں بجتا رہا۔یہ کوئی ڈیڑھ صدی پرانی بات ہی ہوگی جب ڈیلٹا کی ترقی اس کے لوگوں کی معاشی خوشحالی اوریہاں کی مقبول زرعی پیداوار کے چرچے صحیح معنوں میں سات سمندر پار تک سنے جاتے تھے۔اس کے باشندوں اورمورخین کیلئے یہ ماضی کسی ”طرہ امتیاز“ سے کم نہیں مگرکسی کوخبر نہیں کہ یہ زمین اوراس کی تہذیب وثقافت کب تک اپنا وجود برقرار رکھ پائے گی اور کب تاریخ کے طالبعلم اسے ماضی کی ڈوب جانے والی تہذیب وثقافت کے طور پرپڑھنا شروع کردیں گے ۔ڈیلٹا کے حالات دیکھ کر یہ باآسانی کہہ سکتے ہیں کہ شاید اس میں بہت زیادہ وقت نہیں لگے گا۔
ماحولیاتی تحفظ پرکام کرنے والے ماہرین کی جانب سے کی گئی ایک نئی تحقیق کے مطابق ملک میں تمر کے جنگلات بہت تیزی سے ختم ہورہے ہیں ،1992ءسے2001ءکے درمیان ملکی جنگلات میں 19فیصد کمی واقع ہوئی ہے اورانڈس ڈیلٹا میں اس کی شرح بلندترین ہے اوربہت سے دیگرعوامل میں سے ایک اہم وجہ کوٹری ڈاو ¿ن اسٹریم میں 1991ءکے پانی معاہدے کے مطابق پانی نہ چھوڑا جانا ہے۔تمر کے ماحولیاتی فوائد سے ہم سب ہی آگاہ ہیں ۔تمرسیلاب اورزمینی کٹاو ¿ں کوروکنے کے علاوہ سمندری طوفانوں اورسائیکلون میں اہم رکاوٹ تصور کئے جاتے ہیں۔جنگلات کے خاتمے کی چند اہم وجوہات میں آب وہوا میں تبدیلی کاحل انسانی قابو سے باہر ہے لیکن ریاست دوسرے اہم عوامل پربھی توجہ دے سکتی ہے جن میں جنگلات کے بے دریغ کٹاو ¿ کی روک تھام سرفہرست ہے۔ اس تحقیق میں جنگلات کی تباہی کوروکنے کے چند اہم حل بھی فراہم کئے گئے ہیں جن میں جنگلات کی زمین کے کسی دوسرے استعمال پرپابندی اور جنگلات کے انتظام کامکمل منصوبہ شامل ہے۔ ساتھ ہی جنگلات کے اطراف میں رہنے والے لوگوں کوتعلیم اورآگاہی کے ذریعے ان اہم علاقوں کی حفاظت میں شامل کیاجانا بے حدضروری ہے۔اگراسی طرح تمر اوردیگر اقسام کے جنگلات مسلسل کاٹے جاتے رہے تو اس کے منفی اثرات جنگلی حیات پربھی مرتب ہونگے ۔
1999ءکاسمندری طوفان شاید اس وقت بھی لوگوں کویاد ہو جب اس طوفان نے ٹھٹھہ اوربدین کے ساحلی علاقوں میں بڑی تباہی پھیلادی تھی جس کے اثرات آج بھی ان علاقوں میں موجود ہیں ۔پاکستان کی بانسبت پڑوسی ملک بھارت میں تمر کے جنگلات کی حفاظت کیلئے وہاں کی سرکار بہترانتظامات واقدامات کرتی ہے ،شاید یہی وجہ ہے کہ جب 26دسمبر2004ءمیں ہندوستانی ریاست تامل ناڈو اور1999ءمیں اڑیسا ریاست میں خطرناک سمندری طوفان نے جنم لیا تو یہی تمر کے جنگلات تھے جنہوں نے اس طوفان کا سامنا کیا اور اسے کسی بڑی تباہی کا باعث بننے سے روک دیا تھا۔دیکھاجائے تو 50سال قبل انڈس ڈیلٹا میں تمر کے جنگلات میں8اقسام کے درخت موجود تھے جواب کم ہوکر 4 اقسام کے رہ گئے ہیں۔ 1960ءکے عشرے میں انڈس ڈیلٹا میں لگ بھگ3لاکھ63ہزار ہیکٹرز یعنی12لاکھ ایکڑ ز پرمشتمل تمر کے جنگلات موجودتھے جومختلف عشروں میں کمی کے باعث اب ایک لاکھ 6ہزارہیکٹرز تک محدود ہوکررہ گئے ہیں جس میں بھی مزید کمی رونما ہوتی جارہی ہے۔رواں سال کے ماہ مئی میں حیاتیاتی تنوع کے عالمی دن کے موقع پرسندھ کوسٹل ڈیولپمنٹ اتھارٹی اورایشیائی ترقیاتی بنک کے تعاون سے حکومتی سطح پر ٹھٹھہ کے نزدیک ساحلی پٹی سے متصل کاروچھان اورکیٹی بندر کے ڈیلٹائی جزائر میں 7 لاکھ 28ہزار تمر کے پودے لگا کرنیاعالمی ریکارڈ قائم کیا گیا ہے اور اس طرح پاکستان کانام دوبارہ گینز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں پہلے نمبرپرآگیا ہے۔ اس سے قبل بھارت نے ایک ہی دن میں6لاکھ11 ہزار پودے لگا کر عالمی ریکارڈ قائم کیا تھا۔

No comments:
Post a Comment