Thursday, 19 September 2019

بلدیہ ڈگری کالج کی حالت زار
خصوصی رپورٹ
محمد عارف میمن
تعلیم معاشرے میں رہن سہن اورجینے کا ہنر دیتی ہے ،جس طرح ہوا ،پانی اورآگ کے بناءزندگی نہیں ،اسی طرح تعلیم کے بغیر انسان بھی نامکمل ہے۔حضرت محمد ﷺ کا فرمان ہے ٬٬ تعلیم حاصل کرو چاہیے تمہیں چین جانا پڑے،، اس بات سے اندازہ لگالیں کہ تعلیم مہذب معاشرے کے لیے کتنی اہمیت کی حامل ہے۔ تعلیم یافتہ معاشرہ جہالت سے پاک ہوتا ہے ،ہم اکثر دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کا حوالہ دیتے ہیں ان لوگوں نے اتنی ترقی کرلی کہ اب چاند سے آگے کی بات کرتے ہیں ۔ لیکن پاکستان دنیا کا واحد ملک ہے جہاں تعلیم کے میدان میں کوئی خاطر خواہ توجہ نہیں دی گئی۔ دیگر شہروں کا حال کسی اور دن پر چھوڑتے ہیں ابھی ہم کراچی کی بات کرتے ہیں جیسے دنیا کا ساتواں بڑا شہر ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔
سندھ حکومت تعلیم کے معاملے کتنی سنجیدہ ہے یہ دیکھنے کے لیے ہم نے بلدیہ ٹاﺅن کا دورہ کیا جہاں بلدیہ ٹاﺅن کا واحد بلدیہ ڈگری بو ائز کالج موجود ہے۔ سابق ناظم اعلیٰ کراچی نعمت اللہ خان صاحب نے 25 اپریل 2004ءکو بلدیہ ڈگری کالج بوائز کا افتتاح کیا ۔ نعمت اللہ خان صاحب نے اس کالج کا افتتاح کیا اور اس عزم کا اعادہ کیا کہ ابھی تو یہ بلدیہ کا واحد بوائز ڈگری کالج ہے مگر یہ واحد رہے گا نہیں بلکہ یہاں مزید کالجز بنائے جائیں گے،انہوںنے اس امید کا بھی اظہار کیا کہ اس کالج میں شہر کے دیگر کالجز سے بہتر ماحول اور معیاری تعلیم فراہم کی جائے گی۔ تاہم ان کی یہ امیدیں دم توڑ چکی ہیں۔ کرپشن نے جہاں ملک کو دیمک کی چاٹ کر کھوکھلا کردیا ہے وہیں تعلیمی میدانوں میں بیٹھے گدھ بھی تعلیم جیسے مقدس پیشے کو پیسہ بنانے کی مشین سمجھ بیٹھے ہیں۔
بلدیہ ڈگری کالج کی حالت زار دیکھ کر کوئی نہیں کہہ سکتا کہ یہ ایک تعلیمی درس گاہ ہے ۔ مذکورہ کالج اب نشئی افراد کا ٹھکانہ بن چکا ہے ،دیوار ٹوٹنے سے آوارہ کتوں کی آمد ورفت بھی بڑھ چکی ہے۔ بلدیہ ڈگری کالج جہاں میڈیکل ،کامرس اورآرٹس میں داخلوں کا سلسلہ جاری ہے وہیں اس کالج میں نہ پینے کا پانی موجود ہے اور نہ بجلی دستیاب ہے۔ کلاس رومز کے پنکھے ٹوٹ پھوٹ کاشکار ہیں ،فرنیچرز کی حالت بھی قابل دید ہے ،جس پر انسان کے بجائے کتوں نے ڈیرے جما رکھے ہیں۔ دیواروں پر بڑی بڑی دراڑیں اس بات کی نشاندہی کررہی ہیں کہ کبھی بھی یہاں کوئی بڑا حادثہ رونما ہوسکتا ہے۔
سندھ حکومت کے ماتحت کالج کی حالت زار کے سلسلے میںجب پرنسپل سے ملاقات کی تو معلوم ہوا کہ پرنسپل کی سیٹ ایک عرصے سے خالی پڑی ہوئی ہے اور پروفیسر مدثر جلیل اس وقت انچارج کے طورپر کالج کو چلا رہے ہیں۔ پروفیسرز کی تعداد معلوم کرنے پرپتہ چلا کہ کالج میں ضرورت 22پروفیسرز کی ہے مگر دستیاب 15ہیں ،ان میں سے بھی 3اہم سبجیکٹ کیمسٹری ،انگلش اورکامرس کے پروفیسر کا ایک ایسے کالج میں تبادلہ کردیاگیا ہے جسے گھوسٹ کالج کے طورپر جانا جاتا ہے۔دو سال سے نائن ای گورنمنٹ ڈگری کالج کانہ تو کیپس میں کوئی نام ونشان ہے اور نا ہی گورنمنٹ کالجز کی لسٹ میں اسے کہیں شامل کیاگیا ہے۔ جب کہ مذکورہ کالج میں گزشتہ دو سال سے ایک بھی داخلہ نہیں ہوا۔ ایک گھوسٹ کالج میں جہاں کوئی طالب علم سرے سے موجود ہی نہیں وہاں اہم پرفیسرز کا تبادلہ شکوک وشبہات پیدا کررہا ہے ۔بلدیہ گورنمنٹ ڈگری کالج میں پانی کا کنکشن سرے سے موجود ہی نہیں لیکن اس کے باوجود واٹر بور ڈکی جانب سے بیس لاکھ روپے کا بل بھیجا گیا۔ بجلی بھی غیرقانونی استعمال کی جارہی ہے ‘کالج کا ذاتی میٹر تک موجود نہیں ‘لیکن کا بھی بل آرہا ہے۔ ٹیلی فون کنکشن بل کی عدم ادائیگی پر کٹ چکے ہیں ۔ کالج میں لائبریری کے لیے روم اورالماریاں تو موجود ہیں مگر نہ تو روم میں بیٹھنے لائق فرنیچر ہے اور نہ ہی الماریوں میں کوئی کتاب رکھی گئی ہے۔
ساتھ ہی کالج میں لیب کے نام پر ایک روم موجود ہے تاہم وہاں پر کسی قسم کی سہولیات میسر نہیں۔ گراﺅنڈ میں جنگلی جھاڑیوں نے قبضہ جمالیا ہے۔ کالج کی دیوار کے ساتھ موجود فٹ پاتھ کو لوگوں نے کچرا کنڈی بنا رکھا ہے جہاں روزانہ کی بنیاد پر سینکڑوں ٹن کچرا پھینکاجانا معمول بن چکا ہے۔
آج سے تین سال قبل 14اگست کی رات کالج کا ایک بلاک نذر آتش کردیاگیا تھا جس کی ایف آئی آر بھی موجود ہے ‘تاہم اس کے ملزمان بھی تاحال قانون کی گرفت میں نہ آسکے ۔ کانفرنس ہال میں ایک نامعلوم افراد نے اپنی رہائش اختیار کررکھی ہے جہاں پر کسی کو جانے کی اجازت نہیں ۔ واش رومز کئی عرصے سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوکر استعمال کے قابل نہیں رہے۔ اس حوالے سے کالج انچارج کا کہنا تھا کہ ہم اپنی مدد آپ کے تحت کالج کے انتظامات کو چلا رہے ہیں۔ کالج میں مالی موجود ہے مگر کہاں ہے اس کا کسی کو علم نہیں‘ دو چوکیدار ہیں مگر ان کا بھی اتا پتہ نہیں۔ صفائی ستھرائی کےلیے جمعدار پہلے موجودتھا مگراس کا قتل ہوگیا جس کے باعث کالج میں صفائی ستھرائی کے لیے پرائیوٹ جمعدار کو ماہانہ تین ہزار روپے ادا کرنے کے بعد کچھ حالت بہتر نظرآتی ہے ‘تاہم وہ بھی اکثر غیر حاضر رہتا ہے ۔ انچارج نے مزید بتایا کہ ہم نے معتدد بار ایجوکیشن سیکرٹری سے درخواست کی ہے کہ کالج میں بنیادی ضروریات مہیا کی جائیں تاہم اس پر اب تک عمل نہیں ہوسکا ہے۔ ساتھ ہی ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ نائن ای ڈگری کالج میں یہاں سے دو پیون ‘دو کلرک اور تین پروفیسر کے جانے کے بعد اس کالج کے حالات مزید گھمبیر صورت اختیار کرچکے ہیں۔ سینئر کلرک نہ ہونے کے باعث ان کا کام بھی ہمیں ہی کرناپڑتا ہے ‘کالج انتظامیہ کا کوئی نام ونشان نہیں۔ جب کہ آرٹس سبجیکٹ کا کوئی ٹیچر کالج میں موجود نہیں ‘اسلامیات ‘مطالعہ پاکستان کا ٹیچر بھی اب تک کالج کو نہیں دیاگیا۔ انچارج نے بتایا کہ کالج زیر تعمیر ہی ہمیں دے دیاگیا تھا جس کی وجہ سے اس کا گورنمنٹ لسٹ میں نام شامل نہیں۔ تاہم ٹھیکیدار نے پی سی ون اورپی سی فور مانگا تھا جس پرہم نے صرف پی سی فور دیا ‘کیوں کہ کالج اب بھی زیر تعمیر ہے اورہم اپنی مدد آپ کے تحت کام کررہے ہیں ‘ان کا کہنا تھا کہ کالج کی دیوار بہت چھوٹی تھیں جسے ہم نے مزید دو فٹ اونچا کرایا ہے ۔ اس مد میں گورنمنٹ کی جانب کوئی مددفراہم نہیں کی گئی۔ انچارج کا کہنا تھا کہ اسٹیشنری ‘فوٹو کاپی ‘فارمز اوردیگر سامان بھی ہمیں اپنی جیب سے ہی خریدنا پڑ رہا ہے ۔ کالج میں ایک بھی کمپیوٹر نہیں جس کی وجہ سے ہمیں کافی پریشانی کا سامنا کرناپڑتا ہے۔
تین سال قبل کالج فنڈز ختم کردیاگیا جب کہ اے جی سندھ سے منظور شدہ فنڈ کاپچاس فیصد بھی کالج کو نہیں دیاگیا‘ساتھ ہی 2018-19میں اب تک کسی بھی کالج کو کسی قسم کا فنڈ نہیں دیاگیا۔ کالج میں 19میں سے 13اسسٹنٹ پروفیسر کی سیٹیں خالی ہیں ۔ اس کے باوجود یہاں سے پروفیسر اوراسٹاف کو شفٹ کیاگیا۔ کالج کی ستر فیصد دیوار آ ج بھی ٹوٹی ہوئی ہے جس کی کئی درخواستیں متعلقہ حکام کو بجھوائی گئی ہیں لیکن اس پر بھی اب تک کوئی توجہ نہیں دی گئی۔ کالج کو فوری طورپر لائبریرین ‘لائبریری ‘سینئروجونیئر کلرک‘پروفیسرزکی ضرورت ہے اوریہ وہ بنیادی چیزیں ہیں جن سے کالج کا نظام چلتا ہے اگر یہ ہی موجود نہیں ہوگا تو پھر تعلیم کا اللہ ہی حافظ ہے۔ ساتھ ہی پانی وبجلی کے کنکشن بھی مہیا کیے جانے چاہیں تاکہ اسٹاف اورطلبہ اپنی ضرورت کے لیے کالج سے باہر نہ جائیں۔
بلدیہ ٹاﺅن کی سماجی تنظےم فوکس کی جانب سے کئی مرتبہ کالج کے اطراف سے کچرا صاف کرایاگیا اور کالج کی دیواروں پر رنگ وروغن کرکے قومی پرچم بنائے گئے تاہم چند روز بعد ہی دوبارہ کچرا پھینکا جانا شروع ہوجاتا ہے ۔ اب دوبارہ فوکس کی جانب سے صفائی ستھرائی کا عمل شروع کیاگیا اور کالج کی دیواروں کو ایک مرتبہ پھر رنگ وروغن کرکے صاف ستھرا بنایاجارہاہے ۔ فوکس چیئرمین حبیب شا ہ نے اس سلسلے میں بات چیت کرتے ہوئے کہاکہ ہم اپنا فرض ادا کررہے ہیں مگر متعلقہ اداروں کو بھی چاہیے کہ وہ بھی اپنے فرائض کی انجام دہی میں غفلت کامظاہرہ نہ کریں ۔ ہم عوام سے بھی گزارش کرتے ہیں کہ یہ بلدیہ کا واحد کالج ہے جسے کالج ہی رہنے دیں کچرا کنڈی نہ بنائےں ۔ امید ہے اس مرتبہ ہماری کمپئن سے لوگوں میں شعور آجائے اور وہ ان حرکتوں سے باز رہیں۔

No comments:

Post a Comment