Thursday, 19 September 2019

حکومت کی معاشی پالیسیوں نے کاروبار تباہ کردیا ہے ‘انور نیازی


حکومت کی معاشی پالیسیوں نے کاروبار تباہ کردیا ہے ‘انور نیازی
اب کراچی میں کچرے پر سیاست شروع کردی گئی ہے ‘مسائل حل نہیں ہورہے 
عوام کو کے ایم سی ‘ڈی ایم سی اور چائنا کمپنی کے چکر میں الجھا کر رکھ دیاگیا ہے 
تاجرو ں کے مسائل پر چیئرمین انجمن تاجران سعید آباد کی مائی ٹائم سے خصوصی گفتگو 

انجمن تاجران سعید آباد کا قیام آج سے 25سال قبل جس مقصد کے لیے عمل میں لایا گیا آج بھی اسی مقصد کے تحت کام کررہی ہے۔ انجمن تاجران سعید آباد جہاں تاجروں کے مسائل کے حل میں بھرپور کردار اداکررہی ہے وہیں تاجروں کی فلاح وبہبود کے لیے بھی عملی جدوجہد میں مصروف عمل ہے۔ انجمن تاجران کی محنت اورمسائل کے حل میں دلچسپی کو مد نظر رکھتے ہوئے نمائندہ مائی ٹائم نے چیئرمین انجمن تاجران سعید آبادانور نیازی سے ملاقات کی اورتاجروں کو درپیش مسائل اور موجودہ حکومت کی معاشی پالیسیوں کے سلسلے میں مکمل بات چیت کی ‘جوانٹرویو کی صورت میں قارئین کی نذر ہے۔


مائی ٹائم۔ انجمن تاجران سعید آباد کن مقاصد پر کام کررہی ہے؟
انور نیازی۔ انجمن تاجران سعیدآباد کامقصد سیاسی نہیں۔اس کا مقصد صرف تاجروں کو ایک پلیٹ فارم مہیا کرنا ہے اور ان کے مسائل کو سنجیدگی کے ساتھ حل کرنا ہے۔اس کے ساتھ ساتھ مارکیٹ کمیٹی کا مقصد تاجروں کی فلاح وبہبود پر بھی توجہ دینا ہے ۔ اس سلسلے میں تاجر برادری اپنے ان تاجروں کا بھرپور خیا ل رکھتی ہے جو معاشی طورپر کمزور ہوتے ہیں۔ 
مائی ٹائم۔ اب تک کن مسائل کو حل کیاگیا؟
انور نیازی۔ بھتے کی پرچیوں کا ملنا پورے کراچی کا مسئلہ تھا‘تاہم ہم نے سعید آباد میں اس پر بھرپور ورک کیا اور متعلقہ اداروں تک رسائی حاصل کرکے اپنے تاجروں کوان بھتہ پرچیوں سے نجات دلائی۔ بلدیہ ٹاﺅن میں غیر اعلانیہ لوڈشیڈنگ کے باعث کاروبار پر بہت برا اثر پڑ رہاتھا اس سلسلے میں بھی انجمن تاجران سعید آباد نے یک آواز ہوکر اس پر کام کیا اورآج الحمداللہ لوڈشیڈنگ سے علاقے کو نجات دلانے میں کامیاب رہے ہیں۔ اسی طرح صفائی ستھرائی نہ ہونے کی وجہ سے جہاں دکاندار حضرات پریشان تھے وہیں کوئی گاہک بھی آنے کو تیار نہیں ہوتا تھا اس پر بھی ہم نے آواز اٹھائی اوراس مسئلے کو بھی حل کرایا۔ اکثر دکانداروںکے باہمی جھگڑوں اورکبھی گاہک اوردکانداروں کے جھگڑے بھی آجاتے ہیں جنہیں احسن طرےقے سے نمٹایاجاتا ہے ۔ مارکیٹ کمیٹی صرف دکانداروں کا نہیں بلکہ گاہک کے حقوق کا بھی بھرپور خیا ل رکھتی ہے۔ 
مائی ٹائم۔ چوبیس مارکیٹ کے مسائل کس حد تک کم ہوئے؟
انور نیازی۔ ہم اپنی بھرپورکوششیں کرتے رہتے ہیں ‘تاہم یہاں سیاسی مفادات کا گیم زیادہ ہے۔ اب تو کچرے پر بھی سیاست شروع ہوچکی ہے۔ پہلے حالات بہتر تھے ‘لیکن جب سے چائنا کمپنی ‘کے ایم سی ‘ ڈی ایم سی اورسندھ حکومت بیچ میں آئی ہے تب سے حالات گھمبیر صور ت اختیار کرگئے ہیں۔ نظام کو اتناپیچیدہ بنادیاگیا ہے کہ کچھ سمجھ ہی نہیں آتا کہ آیا کچرا کون اٹھائے گا اور ہمیں اپنی شکایت کس کے پاس لے کر جانی چاہیے ۔ جس کے پاس جاتے ہیں وہ کسی اور کا بتا کرخود کو بری الذمہ کردیتا ہے۔ جہاں تک میں سمجھتا ہوں حکومت نے صفائی ستھرائی کے نظام کو کچرا کردیا ہے۔ 
مائی ٹائم۔تاجروں کے بنیادی مسائل کیا ہیں؟
انور نیازی۔ ویسے تو ہر تاجر کے اپنے اپنے مسائل الگ قسم کے ہیں۔ تاہم حکومت کی موجودہ معاشی پالیسی نے تاجروں کو تباہ کردیا ہے۔ ٹیکس نظام اتنا پیچیدہ بنادیاگیا ہے کہ آج ہر تاجر پریشان ہے۔ جو پڑھا لکھا ہے وہ تو جیسے تیسے ڈھیر سارے کاغذوں کو سنبھال لیتا ہے مگر ایک ان پڑھ تاجر ان مسائل کے باعث ٹیکس سے بچنے کی کوشش کرتے ہوئے غلط راستہ اپنالیتا ہے اوروہ غلط راستہ بھی حکومت کے اپنے ہی لوگ اسے دکھاتے ہیں جس سے پیسہ سرکار کے بجائے کسی اورکی جیب میں چلا جاتا ہے ۔ 
مائی ٹائم۔ حکومت نے تاجروں کو بہت زیادہ ریلیف دینے کا وعدہ کیا ہے ‘آپ سے اتفاق کرتے ہیں؟
انورنیازی۔ حکومت کا ریلیف اس وقت ملے گا جب تاجراپنا کاروبار بند کرچکے ہوں گے۔ اس وقت حالات یہ ہےں کہ مال بک نہیں رہا ۔ ایف بی آر سسٹم نے کاروبار اورکاروباریوں کو کہیں کانہیں چھوڑا۔ مہنگائی اتنی بڑھ گئی ہے کہ اب لوگ سوائے ضرورت کی چیزوں کے کچھ خریدنا نہیں چاہتے ہیں۔ اس وقت صرف کھانے پینے اور میڈیسن کا کاروبار عروج پر ہے۔ اس کے بغیر زندگی نہیں اس لیے یہ لوگو ں کی مجبوری ہے ورنہ حالات ایسے ہوگئے ہیں لوگ پہلے چھ ماہ میں جوتے خریدتے تھے اب ایک سال بعد بھی کم ہی دکانوں کا رخ کرتے ہیں۔ ایسے میں کاروباری حضرات کیا کریں گے۔ دکان کا خرچ بھی اب تو جیب سے ادا کیاجارہاہے ۔ مجبورا تاجروں نے پھر کاروبارکو ہی بند کرنا ہے ۔ 
مائی ٹائم۔ حکومت سے کیا مطالبہ کرنا چاہیں گے؟
انور نیازی۔ حکومت سے کیا مطالبہ کرسکتے ہیں۔ حکومت کا جو دل چاہیے وہ کرتی رہتی ہے اس سے پہلے کبھی اس نے تاجروں کی سنی ہے جو اب سنے گی۔ تاہم پھر بھی حکومت سے درخواست کرتا ہوں کہ کرپشن پر قابو پائے ۔ کرپشن کے خاتمے سے کئی مسائل خود ہی حل ہوجائیں گے۔ ساتھ ہی ٹیکس سسٹم کو آسان بنایاجائے تاکہ ہر شخص اورہر تاجر وقت پر ٹیکس ادا کرسکے۔ٹیکس نظام کی پیچیدگیوں سے عوام ٹیکس دینے کتراتی ہے اورلوگ رشوت دے کر اپنے مسائل حل کروالیتے ہیں‘ اس سے نہ صرف حکومت کو نقصان ہورہاہے بلکہ کاروبار بھی کم ہورہاہے۔ اگر حکومت نے اب بھی اس معاملے میں سنجیدگی نہ دکھائی تو پھر ملک کا اللہ ہی حافظ ہے۔ 
 مائی ٹائم۔ حکومت نے ہر چیز پر ٹیکس لگادیا ہے ‘آپ کیا کہتے ہیں؟
انور نیازی۔ دیکھیں ہمیں ٹیکس دینے میں کوئی عار نہیں۔ جائز ٹیکس جو ہے وہ حکومت ہم سے لے۔ مگر یہاں تو الٹی گنگا بہہ رہی ہے ‘ہر جائز وناجائز چیز پر ٹیکس اتنا لگادیاگیا ہے کہ تاجرو ں کی کمر توڑ دی ہے۔ پھر حکومت ٹیکس کے بدلے کوئی تاجروں کو کوئی پیکج بھی نہیں دے رہی۔ حکومت کو چاہیے کہ ٹیکس کے بدلے تاجروں کو کچھ ریلیف اور پیکج بھی فراہم کرے تاکہ کاروبار بند کرنے کی نوبت نہ آئے۔ ایکسپورٹ ختم ہوچکی ہے اور امپورٹ بڑھ رہی ہے ‘جس سے اخراجات بھی بڑھ رہے ہیں۔ اگر اب بھی حکومت نے اس سلسلے میں فوری اقدامات نہ اٹھائے تو پھربہت دیر ہوجائے گی۔ 
مائی ٹائم ۔ آپ میانوالی ویلفیئرایسوسی ایشن کے بھی صدر ہیں‘وہ کن بنیادی مقاصد پر کام کررہی ہے؟
انور نیازی۔ جی ہاں میں میانوارلی ویلفیئر ایسوسی کا صدر ہوں اورویلفیئر میانوالی برادری کی فلاح وبہبود کے لیے کام کررہی ہے۔ اس کا اہم مقصد غریب گھرانوں کی بچیوں کی شادی کرانا‘انہیں جہیز فراہم کرنا ہے ۔ اسی طرح ان گھروں میں موجود بچوں کے تعلیمی اخراجات کا بندوبست کرنا بھی میانوالی ویلفیئر ایسوسی ایشن کے مقاصد میں شامل ہے۔ ہیلتھ کے حوالے سے بھی کام کررہے ہیں مستحق مرےضوں کو علاج ومعالجہ کی سہولیات فراہم کرکے جہاں کے مالی معاملات کو خراب ہونے سے بچا رہے ہیں وہیں علاقائی مسائل کے حل کے لیے بھی دن رات کوشاں ہیں۔ 
مائی ٹائم۔ بلدیہ ٹاﺅن میں ہیلتھ کے معاملات انتہائی خراب ہیں‘ آپ کیا کہیں گے؟
انور نیازی۔ جی یہ بات آپ نے درست کہی ہے۔بلدیہ ٹاﺅن میں ہیلتھ کے معاملات واقعی بہت خراب ہیں۔ ہیلتھ انسپکٹر نے اپنے بیٹر بٹھا رکھے ہیں جو میڈیکل اسٹورزسے بھتہ وصول کرکے انہیں فراہم کرتے ہیں ‘پورے بلدیہ ٹاﺅن میں جعلی لیب کی بھرمار ہے مگر کوئی پوچھنے والا نہیں۔ ابھی کچھ دن پہلے ہی میرے بیٹے کی طبیعت خراب ہوئی۔ ڈاکٹر نے ٹیسٹ لکھ کر دیے جو ایک علاقائی لیبارٹری سے کرائے گئے تاہم جب رپورٹ ڈاکٹر کو دکھائی تو وہ مطمئن نہ ہوئے اور پھر دوبارہ دوسری لیبارٹری ٹیسٹ کرانے کے لیے کہاگیا‘جب دوسری لیبارٹری سے رپورٹ آئی تو دونوں میں انتہائی فرق تھا‘جس کے بعد ہم ضیاءالدین اسپتال چلے گئے اور وہاں پر بھی یہ فرق برقرار رکھا‘ اب میرے بیٹے کا علاج وہیں سے ہورہاہے مگر کہنے کی بات یہ ہے کہ ان جعلی لیبارٹری کی وجہ سے مرض کی تشخیص نہیں ہو پارہی یا پھر جو مرض ہے نہیں اس کی نشاندہی کردی جاتی ہے۔ ایک اچھے بھلے انسان کو بیمار بنانے میں ان لیبارٹریوں کا بہت بڑا ہاتھ ہے ۔ اس سلسلے میں نے کئی متعلقہ اداروں کو درخواست بھی دی ہے لیکن اس پر اب کوئی ایکشن نہیں لیاگیا۔ 

No comments:

Post a Comment