دھوپ سات رنگوں میں پھیلتی ہے آنکھوں پر
برف جب پگھلتی ہے اس کی نرم پلکوں پر
پھر بہار کے ساتھی آ گئے ٹھکانوں پر
سرخ سرخ گھر نکلے سبز سبز شاخوں پر
جسم و جاں سے اترے گی گرد پچھلے موسم کی
دھو رہی ہیں سب چڑیاں اپنے پنکھ چشموں پر
ساری رات سوتے میں مسکرا رہا تھا وہ
جیسے کوئی سپنا سا کانپتا تھا ہونٹوں پر
تتلیاں پکڑنے میں دور تک نکل جانا
کتنا اچھا لگتا ہے پھول جیسے بچوں پر
لہر لہر کرنوں کو چھیڑ کر گزرتی ہے
چاندنی اترتی ہے جب شریر جھرنوں پر
شاعر پروین شاکر۔ پسندنائلہ قریشی ۔ لانڈھی
کو بہ کو پھیل گئی بات شناسائی کی
اس نے خوشبو کی طرح میری پذیرائی کی
کیسے کہہ دوں کہ مجھے چھوڑ دیا ہے اس نے
بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی
وہ کہیں بھی گیا لوٹا تو مرے پاس آیا
بس یہی بات ہے اچھی مرے ہرجائی کی
تیرا پہلو ترے دل کی طرح آباد رہے
تجھ پہ گزرے نہ قیامت شب تنہائی کی
اس نے جلتی ہوئی پیشانی پہ جب ہاتھ رکھا
روح تک آ گئی تاثیر مسیحائی کی
اب بھی برسات کی راتوں میں بدن ٹوٹتا ہے
جاگ اٹھتی ہیں عجب خواہشیں انگڑائی کی
شاعرہ‘ پروین شاکر۔پسند ‘سویرا۔ کراچی
مزاج ہم سے زیادہ جدا نہ تھا اس کا
جب اپنے طور یہی تھے تو کیا گلہ اس کا
وہ اپنے زعم میں تھا بے خبر رہا مجھ سے
اسے گماں بھی نہیں میں نہیں رہا اس کا
وہ برق رو تھا مگر وہ گیا کہاں جانے
اب انتظار کریں گے شکستہ پا اس کا
چلو یہ سیل بلا خیز ہی بنے اپنا
سفینہ اس کا خدا اس کا ناخدا اس کا
یہ اہل درد بھی کس کی دہائی دیتے ہیں
وہ چپ بھی ہو تو زمانہ ہے ہم نوا اس کا
ہمیں نے ترک تعلق میں پہل کی کہ فرازز
وہ چاہتا تھا مگر حوصلہ نہ تھا اس کا
شاعرفرازاحمد۔ پسند عامر علی۔ کراچی
زمانہ آیا ہے بے حجابی کا عام دیدار یار ہوگا
سکوت تھا پردہ دار جس کا وہ راز اب آشکار ہوگا
گزر گیا اب وہ دور ساقی کہ چھپ کے پیتے تھے پینے والے
بنے گا سارا جہان مے خانہ ہر کوئی بادہ خوار ہوگا
کبھی جو آوار ہ جنوں تھے وہ بستیوں میں آ بسیں گے
برہنہ پائی وہی رہے گی مگر نیا خار زار ہوگا
سنا دیا گوش منتظر کو حجاز کی خامشی نے آخر
جو عہد صحرائیوں سے باندھا گیا تھا پر استوار ہوگا
نکل کے صحرا سے جس نے روما کی سلطنت کو الٹ دیا تھا
سنا ہے یہ قدسیوں سے میں نے وہ شیر پھر ہوشیار ہوگا
کیا مرا تذکرہ جو ساقی نے بادہ خواروں کی انجمن میں
تو پیر مے خانہ سن کے کہنے لگا کہ منہ پھٹ ہے خار ہوگا
دیار مغرب کے رہنے والو خدا کی بستی دکاں نہیں ہے
کھرا ہے جسے تم سمجھ رہے ہو وہ اب زر کم عیار ہوگا
تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خودکشی کرے گی
جو شاخ نازک پہ آشیانہ بنے گا ناپائیدار ہوگا
سفین برگ گل بنا لے گا قافلہ مور ناتواں کا
ہزار موجوں کی ہو کشاکش مگر یہ دریا سے پار ہوگا
چمن میں لالہ دکھاتا پھرتا ہے داغ اپنا کلی کلی کو
یہ جانتا ہے کہ اس دکھاوے سے دل جلوں میں شمار ہوگا
جو ایک تھا اے نگاہ تو نے ہزار کر کے ہمیں دکھایا
یہی اگر کیفیت ہے تیری تو پھر کسے اعتبار ہوگا
کہا جو قمری سے میں نے اک دن یہاں کے آزاد پاگل ہیں
تو غنچے کہنے لگے ہمارے چمن کا یہ رازدار ہوگا
خدا کے عاشق تو ہیں ہزاروں بنوں میں پھرتے ہیں مارے مارے
میں اس کا بندہ بنوں گا جس کو خدا کے بندوں سے پیار ہوگا
یہ رسم برہم فنا ہے اے دل گناہ ہے جنبش نظر بھی
رہے گی کیا آبرو ہماری جو تو یہاں بے قرار ہوگا
میں ظلمت شب میں لے کے نکلوں گا اپنے درماندہ کارواں کو
شہہ نشاں ہوگی آہ میری نفس مرا شعلہ بار ہوگا
نہیں ہے غیر از نمود کچھ بھی جو مدعا تیری زندگی کا
تو اک نفس میں جہاں سے مٹنا تجھے مثال شرار ہوگا
نہ پوچھ اقبال کا ٹھکانہ ابھی وہی کیفیت ہے اس کی
کہیں سر راہ گزار بیٹھا ستم کش انتظار ہوگا
شاعر مشرق۔ پسند وسیم احمد۔ کراچی
گفتگو اچھی لگی ذوق نظر اچھا لگا
مدتوں کے بعد کوئی ہم سفر اچھا لگا
دل کا دکھ جانا تو دل کا مسئلہ ہے پر ہمیں
اس کا ہنس دینا ہمارے حال پر اچھا لگا
ہر طرح کی بے سر و سامانیوں کے باوجود
آج وہ آیا تو مجھ کو اپنا گھر اچھا لگا
باغباں گلچیں کو چاہے جو کہے ہم کو تو پھول
شاخ سے بڑھ کر کف دل دار پر اچھا لگا
کوئی مقتل میں نہ پہنچا کون ظالم تھا جسے
تیغ قاتل سے زیادہ اپنا سر اچھا لگا
ہم بھی قائل ہیں وفا میں استواری کے مگر
کوئی پوچھے کون کس کو عمر بھر اچھا لگا
اپنی اپنی چاہتیں ہیں لوگ اب جو بھی کہیں
اک پری پیکر کو اک آشفتہ سر اچھا لگا
میر کے مانند اکثر زیست کرتا تھا فراز
تھا تو وہ دیوانہ سا شاعر مگر اچھا لگا
شاعر فرازاحمد۔ پسند ماجد علی۔ حیدرآباد
آج کی اچھی بات
وقت ‘دولت اوررشتے ایسی چیزیں ہیں جوہمیں مفت میں مل جاتی ہیں ‘مگر ان کی قیمت کا اندازہ ہمیں اس وقت ہوتا ہے جب ہم اپنی نادانی اورانا کے باعث اسے کھو دیتے ہیں۔
فرحانہ قیوم ۔ حیدرآباد
احمق شخص
وہ شخص احمق ہے جو دشمنوں کو دوست بنانے کے لالچ میں دوستوں کو دشمن بنالے۔
غلام حسین ۔ ٹنڈوالہ یار
دوستی
اچھا دوست جتنی بار روٹھ جائے اسے ہر بار منالینا چاہیے کیوں کہ تسبیح کے دانے چاہیے جتنی بار بکھریں چن لیے جاتے ہیں ۔
دلاور شیخ ۔ بلدیہ ٹاﺅن
کشمیر والوں
ہم بھولا نہ سکیں گے یہ ظلم اے کشمیر والو
ہم سلام کہتے ہیں تیری جرآت کو اے کشمیر والو
آزادی ایک نعمت ہے مگر اب یہ گویا
ہونے کو ہے تم آزاداحوصلہ رکھ اے کشمیر والو
ہم بے بس ہیں تیری یہ درد کی داستان پر
مگر ہم ساتھ ہیں تیرے اے کشمیر والو
حوصلہ رکھ،جرآت ،شجاعت اور ا ±مید رکھ
وقت آزادی قریب ہے اے کشمیر والو
ہمارے رب سے یہی التجا ہے صدا
ہوجائے جلد آزاد دعا ہے اے کشمیر والو
اکرم ۔ مظفرآباد
قابل غور
یہ کیسا درد ہے‘ یہاں کوئی اپنے دکھ سے اتنا دکھی نہیں ۔ جتنا دوسرے کے سکھ سے دکھی ہے۔
شیر دل ۔ سلطان آباد
غلطی کااعتراف
اپنی غلطی کا اعتراف کرلینا ایک بہترین خصوصیت ہے ‘ اس سے نفس میں عاجزی پروان چڑھتی ہے اورتکبر بھی کمزورہوتا ہے
قادر۔ بلدیہ ٹاﺅن
اچھی بات
اپنی سوچ کو پانی کے قطروں سے بھی زیادہ شفا ف رکھو
کیوں کہ جس طرح قطرے قطرے دریا بنتا ہے اسی طرح
سوچوں سے ایمان بنتا ہے ۔
نازیہ رحمن ۔ راولپنڈی
بے وفائی کی سب کتابوں میں
تیرے جیسی کوئی مثال نہیں
عنایت خان ۔ کوئٹہ
تو اپنی شیشہ گری کا ہنر نہ کر ضائع
میں آئینہ ہوں ‘مجھے ٹوٹنے کی عادت ہے
شاہین ۔ حیدرآباد
پتو کی طرح مجھ کو بکھیرتا تھا زمانہ
اک شخص نے یکجا کیااور ‘ آگ لگادی
کریم داد۔حب
محفل بزم سکھن
بزم سکھن کی محفل میں اگر آپ بھی حصہ لینا چاہتے ہیں تو ہمیں لکھ بھیجیں ‘ ہم اسے مائی ٹائم بزم سکھن کی محفل میں جگہ دیں گے۔
ہمارا ای میل ایڈریس ہے
mytimemag147@gmail.com
آپ ہمیں فیس بک پر بھی لائک کرسکتے ہیں
facebook.com/My-Time-Magazine
ہماری ویب سائٹ کا وزٹ کیجیے ۔
www.mytime.com.pk
ُPh#-0312-5491079

No comments:
Post a Comment