Thursday, 19 September 2019

سندھ میں زچہ اور بچہ کی اموات میں واضح کمی



سندھ میں زچہ اور بچہ کی اموات میں واضح کمی
مائی ٹائم رپورٹ
صوبہ سندھ میں زچہ اور بچہ کی بقا کو بہتر بنانے کے لیے یوایس ایڈ کی جانب سے شروع کیے گئے فلیگ شپ پروگرام میٹرنل اینڈ چائلڈ سروائیول پروگرام کے تحت ہونے والی سرگرمیوں سے حاصل ہونے والے نتائج کو عام کرنے کے لیے ایک تقریب کا اہتمام کیا گیا۔ صوبائی وزیرصحت و بہبود آبادی ڈاکٹر عذرا فضل پیچوہو اور یو ایس ایڈ کے سندھ بلوچستان کے ڈائریکٹر مائیکل ہرشہشن نے کانفرنس سے خطاب کیا۔ کانفرنس میں صحت کے ذرائع تک رسائی، خاندانی منصوبہ بندی کی خدمات کی دستیابی اور ان کے استعمال کے لیے یو ایس ایڈ کے پروگرام کی خدمات پر روشنی ڈالی گئی۔ مائیکل ہرشہشن نے کہا، ” میں نہ صرف پروگرام کی اب تک کی کامیابیوں سے بلکہ احداف حاصل کرنے کے لیے صوبائی حکومت کی مخلصانہ اقدام سے بھی بہت متاثر ہوں، مجھے یقین ہے کہ ہم مل کر سندھ میں بچہ و زچہ کی اموات کو روکنے کے مقصد میں کامیابی حاصل کرلیںگے۔“ پچھلے تین سالوں میں میٹرنل اینڈ چائلد سروائیول پروگرام نے صحت اور بہبود آبادی کی وزارتوں کے ساتھ مل کر تولیدی، زچہ بچہ اور بچوں کی صحت کے شعبوں میں موثر منصوبے متعارف کرانے کے ساتھ ساتھ ایسے منصوبوں کی ہر طریقے سے حمایت بھی کی تاکہ حتمی مقصد کو حاصل کرکے زچہ و بچہ کی شرح اموات کو کم کیا جاسکے، ان کوششوں میں کلینیکل مانیٹرنگ اور مریض کے ساتھ فالو اپ کرنے کے لیے مددی مواد کا پیکیج بنانا، ماسٹر ٹرینرز کی تربیت، خواتین کی علاج معالجے کے معیاری طریقوں تک رسائی کو بہتر بنانا شامل ہے۔ پروگرام کے تحت بہبود آبادی کے افسران کی تربیت کرنے کے ساتھ ساتھ ان کے لیے رہنما ہدایات اور جانچ پڑتال کا طریقہ کار بھی وضع کیا۔ اس کے علاوہ حکومت کے مخصوص صحت مراکز میں حمل کے دوران ماں اور بچے کی صحت کے بارے میں مشاورتی مراکز بنائے گئے تاکہ لوگوں کو خاندانی منصوبہ بندی کے بارے میں معلومات اور مشورے دیے جاسکیں۔ پروگرام کے لیے امریکی حکومت نے 5.6 ملین ڈالر (تقریبا 896 ملین پاکستانی روپے)کی فنڈنگ کی۔
پاکستان میں 10 لاکھ کیسز میں سے 272 میں زچہ بچہ کی اموات واقع ہوجاتی ہیں جبکہ بلوچستان میں یہ شرح کئی گنا زیادہ ہے جہاں ایک لاکھ حاملہ خواتین میں سے 785 زندگی کی بازی ہار جاتی ہیں۔ یہ تعداد رجسٹر ڈکیسز کی ہے۔ جبکہ وہ تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے جو رجسٹریشن سے رہ جاتے ہیں۔بلوچستان حکومت نے مالی سال 2018-19کے لیے صحت کا بجٹ 19.4 بلین رکھا تھا۔ جس میں 14,419,518,000 روپے تنخواہ کی مد میں اور باقی پانچ ارب روپے کے آس پاس انتظامی معاملات کی مد میں رکھے گئے۔ بلوچستان میں صحت کے شعبے کے لیے مختص کیے جانے والے تھوڑے بہت بجٹ میں سے ایک خطیر رقم تنخواہوں کی مد میں چلی جاتی ہے۔ لیکن اس کے باوجود بلوچستان میں اس شعبے کی افرادی قوت کے خلا کو ہی پ ±ر نہیں کیا جاسکا۔
اٹھارویں ترمیم کے بعد شعبہ صحت صوبوں کے پاس آچکا ہے۔ اب یہ صوبائی حکومت پر منحصر ہے کہ وہ صحت کے شعبے میں اصلاحات لا کر اسے بہتری کی جانب گامزن کرے۔ لیڈی ہیلتھ وزیٹرز، لیڈی میڈیکل ایکسپرٹس اور لیڈی نرسز کی کمی کو پورا کرنے کے لیے نرسنگ اسکولوں کا قیام عمل میں لائے۔ یہ شعبہ بلوچستان کی سطح پر ناپید ہے۔ بولان میڈیکل کالج کے علاوہ اس وقت دیگر چار میڈیکل کالجز کا قیام عمل میں لایا جا چکا ہے۔ ان اداروں کے زیراہتمام نرسنگ اسکولز قائم کرکے لیڈی ہیلتھ اسٹاف کی کمی کو پورا کیاجا سکتا ہے۔ صحت کے مراکز کو وہ آلات اور مشینیں مہیا کیے جائیں جو شعبہِ زچہ بچہ کی ضروریات کو پورا کر سکے۔ اور سب سے اہم بات یہ کہ حالیہ دنوں سینٹ سے پاس ہونے والے ”18سال سے کم عمر شادی پر پابندی“ بل کا اطلاق کرکے صوبے بھر میں زچہ بچہ شرح اموات میں کمی لائی جا سکتی ہے۔

No comments:

Post a Comment