Friday, 4 October 2019
Thursday, 19 September 2019
محفل بزم سکھن
دھوپ سات رنگوں میں پھیلتی ہے آنکھوں پر
برف جب پگھلتی ہے اس کی نرم پلکوں پر
پھر بہار کے ساتھی آ گئے ٹھکانوں پر
سرخ سرخ گھر نکلے سبز سبز شاخوں پر
جسم و جاں سے اترے گی گرد پچھلے موسم کی
دھو رہی ہیں سب چڑیاں اپنے پنکھ چشموں پر
ساری رات سوتے میں مسکرا رہا تھا وہ
جیسے کوئی سپنا سا کانپتا تھا ہونٹوں پر
تتلیاں پکڑنے میں دور تک نکل جانا
کتنا اچھا لگتا ہے پھول جیسے بچوں پر
لہر لہر کرنوں کو چھیڑ کر گزرتی ہے
چاندنی اترتی ہے جب شریر جھرنوں پر
شاعر پروین شاکر۔ پسندنائلہ قریشی ۔ لانڈھی
کو بہ کو پھیل گئی بات شناسائی کی
اس نے خوشبو کی طرح میری پذیرائی کی
کیسے کہہ دوں کہ مجھے چھوڑ دیا ہے اس نے
بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی
وہ کہیں بھی گیا لوٹا تو مرے پاس آیا
بس یہی بات ہے اچھی مرے ہرجائی کی
تیرا پہلو ترے دل کی طرح آباد رہے
تجھ پہ گزرے نہ قیامت شب تنہائی کی
اس نے جلتی ہوئی پیشانی پہ جب ہاتھ رکھا
روح تک آ گئی تاثیر مسیحائی کی
اب بھی برسات کی راتوں میں بدن ٹوٹتا ہے
جاگ اٹھتی ہیں عجب خواہشیں انگڑائی کی
شاعرہ‘ پروین شاکر۔پسند ‘سویرا۔ کراچی
مزاج ہم سے زیادہ جدا نہ تھا اس کا
جب اپنے طور یہی تھے تو کیا گلہ اس کا
وہ اپنے زعم میں تھا بے خبر رہا مجھ سے
اسے گماں بھی نہیں میں نہیں رہا اس کا
وہ برق رو تھا مگر وہ گیا کہاں جانے
اب انتظار کریں گے شکستہ پا اس کا
چلو یہ سیل بلا خیز ہی بنے اپنا
سفینہ اس کا خدا اس کا ناخدا اس کا
یہ اہل درد بھی کس کی دہائی دیتے ہیں
وہ چپ بھی ہو تو زمانہ ہے ہم نوا اس کا
ہمیں نے ترک تعلق میں پہل کی کہ فرازز
وہ چاہتا تھا مگر حوصلہ نہ تھا اس کا
شاعرفرازاحمد۔ پسند عامر علی۔ کراچی
زمانہ آیا ہے بے حجابی کا عام دیدار یار ہوگا
سکوت تھا پردہ دار جس کا وہ راز اب آشکار ہوگا
گزر گیا اب وہ دور ساقی کہ چھپ کے پیتے تھے پینے والے
بنے گا سارا جہان مے خانہ ہر کوئی بادہ خوار ہوگا
کبھی جو آوار ہ جنوں تھے وہ بستیوں میں آ بسیں گے
برہنہ پائی وہی رہے گی مگر نیا خار زار ہوگا
سنا دیا گوش منتظر کو حجاز کی خامشی نے آخر
جو عہد صحرائیوں سے باندھا گیا تھا پر استوار ہوگا
نکل کے صحرا سے جس نے روما کی سلطنت کو الٹ دیا تھا
سنا ہے یہ قدسیوں سے میں نے وہ شیر پھر ہوشیار ہوگا
کیا مرا تذکرہ جو ساقی نے بادہ خواروں کی انجمن میں
تو پیر مے خانہ سن کے کہنے لگا کہ منہ پھٹ ہے خار ہوگا
دیار مغرب کے رہنے والو خدا کی بستی دکاں نہیں ہے
کھرا ہے جسے تم سمجھ رہے ہو وہ اب زر کم عیار ہوگا
تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خودکشی کرے گی
جو شاخ نازک پہ آشیانہ بنے گا ناپائیدار ہوگا
سفین برگ گل بنا لے گا قافلہ مور ناتواں کا
ہزار موجوں کی ہو کشاکش مگر یہ دریا سے پار ہوگا
چمن میں لالہ دکھاتا پھرتا ہے داغ اپنا کلی کلی کو
یہ جانتا ہے کہ اس دکھاوے سے دل جلوں میں شمار ہوگا
جو ایک تھا اے نگاہ تو نے ہزار کر کے ہمیں دکھایا
یہی اگر کیفیت ہے تیری تو پھر کسے اعتبار ہوگا
کہا جو قمری سے میں نے اک دن یہاں کے آزاد پاگل ہیں
تو غنچے کہنے لگے ہمارے چمن کا یہ رازدار ہوگا
خدا کے عاشق تو ہیں ہزاروں بنوں میں پھرتے ہیں مارے مارے
میں اس کا بندہ بنوں گا جس کو خدا کے بندوں سے پیار ہوگا
یہ رسم برہم فنا ہے اے دل گناہ ہے جنبش نظر بھی
رہے گی کیا آبرو ہماری جو تو یہاں بے قرار ہوگا
میں ظلمت شب میں لے کے نکلوں گا اپنے درماندہ کارواں کو
شہہ نشاں ہوگی آہ میری نفس مرا شعلہ بار ہوگا
نہیں ہے غیر از نمود کچھ بھی جو مدعا تیری زندگی کا
تو اک نفس میں جہاں سے مٹنا تجھے مثال شرار ہوگا
نہ پوچھ اقبال کا ٹھکانہ ابھی وہی کیفیت ہے اس کی
کہیں سر راہ گزار بیٹھا ستم کش انتظار ہوگا
شاعر مشرق۔ پسند وسیم احمد۔ کراچی
گفتگو اچھی لگی ذوق نظر اچھا لگا
مدتوں کے بعد کوئی ہم سفر اچھا لگا
دل کا دکھ جانا تو دل کا مسئلہ ہے پر ہمیں
اس کا ہنس دینا ہمارے حال پر اچھا لگا
ہر طرح کی بے سر و سامانیوں کے باوجود
آج وہ آیا تو مجھ کو اپنا گھر اچھا لگا
باغباں گلچیں کو چاہے جو کہے ہم کو تو پھول
شاخ سے بڑھ کر کف دل دار پر اچھا لگا
کوئی مقتل میں نہ پہنچا کون ظالم تھا جسے
تیغ قاتل سے زیادہ اپنا سر اچھا لگا
ہم بھی قائل ہیں وفا میں استواری کے مگر
کوئی پوچھے کون کس کو عمر بھر اچھا لگا
اپنی اپنی چاہتیں ہیں لوگ اب جو بھی کہیں
اک پری پیکر کو اک آشفتہ سر اچھا لگا
میر کے مانند اکثر زیست کرتا تھا فراز
تھا تو وہ دیوانہ سا شاعر مگر اچھا لگا
شاعر فرازاحمد۔ پسند ماجد علی۔ حیدرآباد
آج کی اچھی بات
وقت ‘دولت اوررشتے ایسی چیزیں ہیں جوہمیں مفت میں مل جاتی ہیں ‘مگر ان کی قیمت کا اندازہ ہمیں اس وقت ہوتا ہے جب ہم اپنی نادانی اورانا کے باعث اسے کھو دیتے ہیں۔
فرحانہ قیوم ۔ حیدرآباد
احمق شخص
وہ شخص احمق ہے جو دشمنوں کو دوست بنانے کے لالچ میں دوستوں کو دشمن بنالے۔
غلام حسین ۔ ٹنڈوالہ یار
دوستی
اچھا دوست جتنی بار روٹھ جائے اسے ہر بار منالینا چاہیے کیوں کہ تسبیح کے دانے چاہیے جتنی بار بکھریں چن لیے جاتے ہیں ۔
دلاور شیخ ۔ بلدیہ ٹاﺅن
کشمیر والوں
ہم بھولا نہ سکیں گے یہ ظلم اے کشمیر والو
ہم سلام کہتے ہیں تیری جرآت کو اے کشمیر والو
آزادی ایک نعمت ہے مگر اب یہ گویا
ہونے کو ہے تم آزاداحوصلہ رکھ اے کشمیر والو
ہم بے بس ہیں تیری یہ درد کی داستان پر
مگر ہم ساتھ ہیں تیرے اے کشمیر والو
حوصلہ رکھ،جرآت ،شجاعت اور ا ±مید رکھ
وقت آزادی قریب ہے اے کشمیر والو
ہمارے رب سے یہی التجا ہے صدا
ہوجائے جلد آزاد دعا ہے اے کشمیر والو
اکرم ۔ مظفرآباد
قابل غور
یہ کیسا درد ہے‘ یہاں کوئی اپنے دکھ سے اتنا دکھی نہیں ۔ جتنا دوسرے کے سکھ سے دکھی ہے۔
شیر دل ۔ سلطان آباد
غلطی کااعتراف
اپنی غلطی کا اعتراف کرلینا ایک بہترین خصوصیت ہے ‘ اس سے نفس میں عاجزی پروان چڑھتی ہے اورتکبر بھی کمزورہوتا ہے
قادر۔ بلدیہ ٹاﺅن
اچھی بات
اپنی سوچ کو پانی کے قطروں سے بھی زیادہ شفا ف رکھو
کیوں کہ جس طرح قطرے قطرے دریا بنتا ہے اسی طرح
سوچوں سے ایمان بنتا ہے ۔
نازیہ رحمن ۔ راولپنڈی
بے وفائی کی سب کتابوں میں
تیرے جیسی کوئی مثال نہیں
عنایت خان ۔ کوئٹہ
تو اپنی شیشہ گری کا ہنر نہ کر ضائع
میں آئینہ ہوں ‘مجھے ٹوٹنے کی عادت ہے
شاہین ۔ حیدرآباد
پتو کی طرح مجھ کو بکھیرتا تھا زمانہ
اک شخص نے یکجا کیااور ‘ آگ لگادی
کریم داد۔حب
محفل بزم سکھن
بزم سکھن کی محفل میں اگر آپ بھی حصہ لینا چاہتے ہیں تو ہمیں لکھ بھیجیں ‘ ہم اسے مائی ٹائم بزم سکھن کی محفل میں جگہ دیں گے۔
ہمارا ای میل ایڈریس ہے
mytimemag147@gmail.com
آپ ہمیں فیس بک پر بھی لائک کرسکتے ہیں
facebook.com/My-Time-Magazine
ہماری ویب سائٹ کا وزٹ کیجیے ۔
www.mytime.com.pk
ُPh#-0312-5491079
سری لنکا کا دورہ پاکستان پر سوالیہ نشان
سری لنکا کا دورہ پاکستان پر سوالیہ نشان
سری لنکن حکومت نے خاموشی اختیارکر لی
دورئہ پاکستان کی اجازت کے حوالے سے سری لنکن حکومت نے مکمل خاموشی اختیار کرلی ہے۔ جب کہ ٹیم اپنی مکمل تیاری کے ساتھ انتظار کی سولی پر لٹکی ہوئی نظرآرہی ہے حکومت کی جانب سے ٹیم کو تاحال کلیئرنس کا انتظار ہے۔سری لنکن ٹیم کو ون ڈے اور ٹوئنٹی 20 سیریز کیلیے 24 ستمبر کو پاکستان کیلیے اڑان بھرنی ہے، مگراب تک انھیں اپنی حکومت کی جانب سے کلیئرنس نہیں مل سکی۔گزشتہ ہفتے وزیراعظم ہاو ¿س کی جانب سے اس وقت کرکٹ بورڈ کو پاکستان میں سیکورٹی صورتحال کے دوبارہ جائزے کی ہدایت دی گئی جب اس نے اسکواڈز کا اعلان کیا تھا،ایس ایل سی نے وزارت دفاع سے دہشت گرد حملے کے خطرے پرپاکستان میں دوبارہ سیکورٹی جائزے کیلیے رہنمائی اور کلیئرنس کی درخواست کردی تھی، مگر ابھی تک حکومت سے کوئی بھی جواب موصول نہیں ہوا۔ایک سینئر آفیشل کا کہنا ہے کہ اس ٹور کے بارے میں کوئی بھی فیصلہ کرنے سے قبل ہم نے وزارت دفاع سے اس بارے میں رہنمائی مانگی، سیکریٹری دفاع کو باقاعدہ خط لکھا گیا ہے جس کے جواب کا انتظار ہے۔انھوں نے مزید کہا کہ ہم انٹرنیشنل کرکٹ کی واپسی کیلیے پاکستان کرکٹ بورڈ کی مدد کرنا چاہتے ہیں کیونکہ انھوں نے بھی ہمیشہ ہمارا ساتھ دیاہے، بورڈ صدر شمی سلوا کی بھی اگلے چند روز میں لاہور روانگی متوقع ہے جہاں وہ اس دورے سے متعلق پی سی بی آفیشلز سے مزید گفت و شنید کرینگے، البتہ ان سب چیزوں کا دارومدار وزارت دفاع کے جواب پر ہے۔شمی سلوا نے کہاکہ پاکستان نے جو سیکورٹی انتظامات کیے ہم ان سے مطمئن ہیں اور ہمیں نئے خطرے کے بارے میں کچھ معلوم نہیں، اسی لیے حکومت سے رہنمائی مانگی، جیسے ہی ہمیں حکومت کی سے کلیئرنس ملے گی ٹور کے بارے میں حتمی فیصلہ کریں گے۔
دوسری جانب دورے سے انکار کرنے والے کھلاڑیوں کے حوالے سے رائے عامہ تبدیل ہورہی ہے۔کچھ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ان نام نہاد اسٹارز نے موقع دیکھتے ہوئے بورڈ کے خلاف بغاوت کی۔اپنی آنکھوں سے کولمبو میں دہشت گردی کی ہولناکی دیکھنے والے ڈاسن شناکا پاکستان جانے کو تیار ہیں۔یاد رہے کہ اپریل میں ایسٹر کے موقع پر شناکا کو بھی چرچ جانا تھا مگر رات کو دیر سے دوسرے شہر سے آنے کی وجہ سے وہ نہیں گئے مگر حملے کی خبر ملتے ہی وہ چرچ بھاگے تھے جہاں پر ان کی والدہ اور دادی موجود تھیں ، انھوں نے اپنی آنکھوں سے تباہی دیکھی تھی، ان کی والدہ محفوظ رہیں جبکہ دادی کو سر پر چوٹیں آئی تھیں، شناکا کو دورہ پاکستان کیلیے ٹوئنٹی 20 ٹیم کا کپتان بنایا گیا ہے۔
اس حوالے سے قومی ٹیم کے کپتان سرفراز احمد کا کہنا ہے کہ پاکستان میں سیکورٹی کا کوئی ایشو نہیں اور سری لنکا ٹیم کو کہوں گا وہ یہاں آکر کھیلے۔کراچی میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے قومی ٹیم کے کپتان سرفراز احمد کا کہنا تھا کہ پاکستان کرکٹ بورڈ نے انٹرنیشل کرکٹ کی واپسی کیلیے بہت کوششیں کی ہیں، آئی سی سی اور دیگر ممالک کے بورڈز کو پاکستان کو سپورٹ کرنا چاہیے، ہم نے دوسرے ممالک کو سپورٹ کیا دوسرے ممالک بھی پاکستان میں انٹرنیشنل کرکٹ کی واپسی کے لیے کردار ادا کریں۔قومی ٹیم کے کپتان نے کہا کہ نہیں معلوم سری لنکا ٹیم کے پاکستان نہ آنے کے پیچھے کس کا ہاتھ ہے مگر سری لنکا میں دہشت گردی کا بڑا واقعہ ہوا اس کے باوجود ہماری انڈر 19 ٹیم وہاں گئی اور اچھے کی امید ہی رکھنی چاہے‘ امید ہے سری لنکا ٹیم کے ساتھ شیڈول کے مطابق ہو۔ چیئرمین پی سی بی احسان مانی اس حوالے سے کہتے ہیں سیریز پاکستان میں ہوگی اور ہم اس سیریز کے لیے پرامید ہیں۔ پاکستان میں حالات کافی بہترہیں ۔
سابق اسٹار رمیز راجہ نے کہاکہ سیکورٹی خطرات تو سری لنکا یہاں تک نیوزی لینڈ میں بھی کم نہیں،حیرت اس بات پر ہے کہ قبل ازیں ورلڈ الیون اور قومی ٹیم کے ساتھ پاکستان کا دورہ کرتے ہوئے فول پروف سیکورٹی انتظامات کو خود اپنی آنکھوں سے دیکھنے والے تھشارا پریرا نے بھی انکار کردیا، میں انفرادی طور پر ان کھلاڑیوں کا مسئلہ تو سمجھ سکتا ہوں جو 2009میں دہشت گردی کا شکار ہونے والے اسکواڈ کا حصہ تھے شاید وہ اس تجربے سے خوفزدہ ہوں۔انھوں نے کہا کہ موجودہ صورتحال سے اندازہ ہوتا ہے کہ دورئہ پاکستان کے حوالے سے تحفظات دور کرنے میں ایس ایل سی اور کھلاڑیوں میں رابطے کا فقدان رہا، بورڈ نے سیکورٹی انتظامات کا جائزہ لینے کے بعد ٹور کا اعلان کردیا لیکن اسے اندازہ نہیں تھا کہ کھلاڑی اسے مشکل میں ڈال دیں گے،ان کو کرکٹرز کا مسئلہ پہلے دیکھنے کے بعد دورے کا فیصلہ کرنا چاہیے تھا۔رمیز راجہ نے کہا کہ پاکستان نے ہمیشہ مشکل وقت میں سری لنکا کا ساتھ دیا، ورلڈکپ 1996اور کولمبو میں بم دھماکوں کے بعد بھی پی سی بی نے اپنی انڈر19ٹیم بھجوائی، ایشیائی ملکوں کی کرکٹ برادری کو ایک دوسرے کا ساتھ دینے کا رویہ اپنانا ہوگا۔جاوید میانداد نے کہا کہ سری لنکن بورڈ قومی ذمہ داریوں پر لیگز کو ترجیح دینے والے پلیئرز کا نوٹس لے، کسی بھی کھلاڑی کیلیے ملک کی نمائندگی پہلی ترجیح ہونا چاہیے، بہرحال جو بھی کرکٹرز آرہے ہیں اس سے قطع نظر پاکستان کو بہترین کرکٹ کھیلنا چاہیے۔شعیب اخترنے کہاکہ پی سی بی نے کولمبو دھماکوں کے بعد انڈر19ٹیم بھجوانے سمیت ہمیشہ سری لنکن کرکٹ کو سپورٹ کیا، دورے سے انکار کرنے والے کرکٹرز نے مایوس کیا ہے۔
دنیا کی امیر ترین خواتین
فوربزکی فہرست میں مختلف ملکوں اورمعروف بین الاقوامی کاروباری اداروں سے تعلق رکھنے والی خواتین شامل ہیں
امریکی میگزین فوربز کی امیر ترین خواتین کی فہرست جاری،مختلف ملکوں اور معروف بین الاقوامی کاروباری اداروں سے تعلق رکھنے والی خواتین شامل ہیں
مائی ٹائم رپورٹ
معروف امریکی جریدے فوربز نے دنیا بھر میں امیر ترین خواتین کی ایک فہرست شائع کی ہے جس میں مختلف ملکوں اور معروف بین الاقوامی کاروباری اداروں سے تعلق رکھنے والی خواتین کو شامل کیا گیا ہے۔میگزین کی فہرست کے مطابق پہلے نمبر پر فرانسیسی کاسمیٹکس کمپنی لوریل کی چیئرمین فرانسواز بیٹن کورٹ مائیرز ہیں جن کے اثاثوں کی مالیت 49.3 ارب ڈالر اور وہ دنیا کی 15ویں امیر ترین انسان ہیں، وہ اپنے خاندان سمیت اس کمپنی کی ایک تہائی مالکن ہیں۔65 سالہ فرانسواز بیٹن کورٹ مائیرز کو ان کی جائداد اپنی والدہ لیلیٰ این بیٹن کورٹ سے وصول ہوئی جو ستمبر 2017ءمیں 94 سال کی عمر میں وفات پا گئیں۔
فہرست میں دوسرا نام معروف امریکی کمپنی وال مارٹ کے بانی سیم والٹن کی بیٹی ایلس والٹن کا ہے جو 44.4 ارب ڈالر کے اثاثوں کے ساتھ دنیا کی 17ویں امیر ترین انسان ہیں۔69 سالہ ایلس والٹن معروف امریکی کمپنی وال مارٹ کے بانی سیم والٹن کی اکلوتی بیٹی ہیں، تاہم اپنے دو بھائیوں کے برعکس انھوں نے اپنی خاندانی کمپنی سے دور رہ کر اپنی توجہ فن کی طرف کر دی ہے۔ ایلس اپنے آبائی شہر بینٹن ویل میں کرسٹل برجز میوزیم آف امیریکن آرٹ کی سربراہ بھی ہیں۔
تیسرے نمبر پر امریکی ملٹی نیشنل ٹیکنالوجی کمپنی ایمزون کے بانی جیف بینروس کی سابقہ اہلیہ 48 سالہ مکینزی بیزوس ہیں جن کے اثاثوں کی مالیت 35.6 ارب امریکی ڈالر ہے جو صرف ان کا ایمزون کا حصہ ہے اور ک ±ل مالیت شاید اس سے بھی زیادہ ہو، ان کو یہ رقم اپنے شوہر سے علیحدگی شرائط کے تحت ملی۔مکینزی بیزوس کی زیر ملکیت آن لائن ریٹیل ویب سائٹ ایمازون کا چار فیصد حصہ ہوگا، یہ حصہ 35.6 ارب امریکی ڈالر کے لگ بھگ ہے جس سے وہ دنیا کی تیسری امیر ترین خاتون اور 24 ویں امیر ترین انسان بن گئی ہیں۔
عالمی سطح پر امیر ترین خواتین میں چوتھا نام امریکی چاکلیٹ کمپنی مارز کی ایک تہائی کی مالکن 79 سالہ جیکلین مارز کا ہے جن کے اثاثوں کی مالیت 23.9 ارب امریکی ڈالر ہے،ان اثاثوں کے ساتھ یہ دنیا کی 33 ویں امیر ترین انسان ہیں۔ یہ کمپنی ان کے دادا فرینک نے 1911ءمیں بنائی تھی۔انھوں نے تقریباً 20 سال اپنی خاندانی کمپنی کے ساتھ کام کیا ہے اور 2016ءتک وہ اس کمپنی کے بورڈ کی رکن بھی تھیں۔
پانچویں امیر ترین خاتون چینی ریئل اسٹیٹ کمپنی کنٹری گارڈن ہولڈنگز کے اکثریتی حصص کی مالکن 27 سالہ یان ھوان ہیں جن کے اثاثوں کی مالیت 22.1 ارب ڈالر ہے، وہ چین کی سب سے امیر ترین خاتون اور دنیا کی 42 ویں امیر ترین انسان ہیں۔کنٹری گارڈن کی ویب سائٹ کے مطابق یہ 2016ءمیں دنیا کی تیسری بڑی پراپرٹی کمپنی تھی، ان کو اس کمپنی کا 57 فیصد حصہ اپنے والد سے 2016ءمیں ورثے میں ملا۔
فہرست میں مجموعی طور پر چھٹی اور دوسری یورپین خاتون سوزین کلیٹن کے اثاثوں کی مالیت 21 ارب امریکی ڈالر ہے جس سے یہ دنیا کی 46 ویں امیر ترین انسان ہیں۔جرمنی سے تعلق رکھنے والی 56 سالہ سوزین کی دولت کے اس حجم کے پیچھے دواسازی اور گاڑیوں کی کمپنیاں ہیں۔ سوزین کو اپنے والدین کی وفات کے بعد کیمیائی اشیاءبنانے والی کمپنی ایٹلینٹا اے جی کا نصف حصہ وراثت میں ملا جبکہ سوزین اور ان کے بھائی کا کل ملا کر بی ایم ڈبلیو میں تقریباً 50 فیصد حصہ بھی ہے۔انھوں نے ایٹلینٹا کو نجی محدود شراکت دار کمپنی بنا کر مکمل طور پر خرید لیا ہے،ساتھ ہی انھوں نے کئی اور کمپنیوں میں بھی شئیرز خریدے ہیں۔
ساتویں امیر ترین خاتون ایپل کے بانی اسٹیو جوبز کی بیوہ 55 سالہ لورین پاول جوبز ہیں جن کے اثاثوں کی مالیت 18.6 ارب ڈالرہے۔ لورین نے کچھ پیسے صحافت میں لگا کر دی ایٹلانٹک رسالے کا اکثریتی حصہ خریدا ہے اور مدر جونز اور پرو پبلکا جیسے غیر منافع بخش اداروں میں بھی حصص خریدے ۔
حکومت کی معاشی پالیسیوں نے کاروبار تباہ کردیا ہے ‘انور نیازی
حکومت کی معاشی پالیسیوں نے کاروبار تباہ کردیا ہے ‘انور نیازی
اب کراچی میں کچرے پر سیاست شروع کردی گئی ہے ‘مسائل حل نہیں ہورہے
عوام کو کے ایم سی ‘ڈی ایم سی اور چائنا کمپنی کے چکر میں الجھا کر رکھ دیاگیا ہے
تاجرو ں کے مسائل پر چیئرمین انجمن تاجران سعید آباد کی مائی ٹائم سے خصوصی گفتگو
انجمن تاجران سعید آباد کا قیام آج سے 25سال قبل جس مقصد کے لیے عمل میں لایا گیا آج بھی اسی مقصد کے تحت کام کررہی ہے۔ انجمن تاجران سعید آباد جہاں تاجروں کے مسائل کے حل میں بھرپور کردار اداکررہی ہے وہیں تاجروں کی فلاح وبہبود کے لیے بھی عملی جدوجہد میں مصروف عمل ہے۔ انجمن تاجران کی محنت اورمسائل کے حل میں دلچسپی کو مد نظر رکھتے ہوئے نمائندہ مائی ٹائم نے چیئرمین انجمن تاجران سعید آبادانور نیازی سے ملاقات کی اورتاجروں کو درپیش مسائل اور موجودہ حکومت کی معاشی پالیسیوں کے سلسلے میں مکمل بات چیت کی ‘جوانٹرویو کی صورت میں قارئین کی نذر ہے۔
مائی ٹائم۔ انجمن تاجران سعید آباد کن مقاصد پر کام کررہی ہے؟
انور نیازی۔ انجمن تاجران سعیدآباد کامقصد سیاسی نہیں۔اس کا مقصد صرف تاجروں کو ایک پلیٹ فارم مہیا کرنا ہے اور ان کے مسائل کو سنجیدگی کے ساتھ حل کرنا ہے۔اس کے ساتھ ساتھ مارکیٹ کمیٹی کا مقصد تاجروں کی فلاح وبہبود پر بھی توجہ دینا ہے ۔ اس سلسلے میں تاجر برادری اپنے ان تاجروں کا بھرپور خیا ل رکھتی ہے جو معاشی طورپر کمزور ہوتے ہیں۔
مائی ٹائم۔ اب تک کن مسائل کو حل کیاگیا؟
انور نیازی۔ بھتے کی پرچیوں کا ملنا پورے کراچی کا مسئلہ تھا‘تاہم ہم نے سعید آباد میں اس پر بھرپور ورک کیا اور متعلقہ اداروں تک رسائی حاصل کرکے اپنے تاجروں کوان بھتہ پرچیوں سے نجات دلائی۔ بلدیہ ٹاﺅن میں غیر اعلانیہ لوڈشیڈنگ کے باعث کاروبار پر بہت برا اثر پڑ رہاتھا اس سلسلے میں بھی انجمن تاجران سعید آباد نے یک آواز ہوکر اس پر کام کیا اورآج الحمداللہ لوڈشیڈنگ سے علاقے کو نجات دلانے میں کامیاب رہے ہیں۔ اسی طرح صفائی ستھرائی نہ ہونے کی وجہ سے جہاں دکاندار حضرات پریشان تھے وہیں کوئی گاہک بھی آنے کو تیار نہیں ہوتا تھا اس پر بھی ہم نے آواز اٹھائی اوراس مسئلے کو بھی حل کرایا۔ اکثر دکانداروںکے باہمی جھگڑوں اورکبھی گاہک اوردکانداروں کے جھگڑے بھی آجاتے ہیں جنہیں احسن طرےقے سے نمٹایاجاتا ہے ۔ مارکیٹ کمیٹی صرف دکانداروں کا نہیں بلکہ گاہک کے حقوق کا بھی بھرپور خیا ل رکھتی ہے۔
مائی ٹائم۔ چوبیس مارکیٹ کے مسائل کس حد تک کم ہوئے؟
انور نیازی۔ ہم اپنی بھرپورکوششیں کرتے رہتے ہیں ‘تاہم یہاں سیاسی مفادات کا گیم زیادہ ہے۔ اب تو کچرے پر بھی سیاست شروع ہوچکی ہے۔ پہلے حالات بہتر تھے ‘لیکن جب سے چائنا کمپنی ‘کے ایم سی ‘ ڈی ایم سی اورسندھ حکومت بیچ میں آئی ہے تب سے حالات گھمبیر صور ت اختیار کرگئے ہیں۔ نظام کو اتناپیچیدہ بنادیاگیا ہے کہ کچھ سمجھ ہی نہیں آتا کہ آیا کچرا کون اٹھائے گا اور ہمیں اپنی شکایت کس کے پاس لے کر جانی چاہیے ۔ جس کے پاس جاتے ہیں وہ کسی اور کا بتا کرخود کو بری الذمہ کردیتا ہے۔ جہاں تک میں سمجھتا ہوں حکومت نے صفائی ستھرائی کے نظام کو کچرا کردیا ہے۔
مائی ٹائم۔تاجروں کے بنیادی مسائل کیا ہیں؟
انور نیازی۔ ویسے تو ہر تاجر کے اپنے اپنے مسائل الگ قسم کے ہیں۔ تاہم حکومت کی موجودہ معاشی پالیسی نے تاجروں کو تباہ کردیا ہے۔ ٹیکس نظام اتنا پیچیدہ بنادیاگیا ہے کہ آج ہر تاجر پریشان ہے۔ جو پڑھا لکھا ہے وہ تو جیسے تیسے ڈھیر سارے کاغذوں کو سنبھال لیتا ہے مگر ایک ان پڑھ تاجر ان مسائل کے باعث ٹیکس سے بچنے کی کوشش کرتے ہوئے غلط راستہ اپنالیتا ہے اوروہ غلط راستہ بھی حکومت کے اپنے ہی لوگ اسے دکھاتے ہیں جس سے پیسہ سرکار کے بجائے کسی اورکی جیب میں چلا جاتا ہے ۔
مائی ٹائم۔ حکومت نے تاجروں کو بہت زیادہ ریلیف دینے کا وعدہ کیا ہے ‘آپ سے اتفاق کرتے ہیں؟
انورنیازی۔ حکومت کا ریلیف اس وقت ملے گا جب تاجراپنا کاروبار بند کرچکے ہوں گے۔ اس وقت حالات یہ ہےں کہ مال بک نہیں رہا ۔ ایف بی آر سسٹم نے کاروبار اورکاروباریوں کو کہیں کانہیں چھوڑا۔ مہنگائی اتنی بڑھ گئی ہے کہ اب لوگ سوائے ضرورت کی چیزوں کے کچھ خریدنا نہیں چاہتے ہیں۔ اس وقت صرف کھانے پینے اور میڈیسن کا کاروبار عروج پر ہے۔ اس کے بغیر زندگی نہیں اس لیے یہ لوگو ں کی مجبوری ہے ورنہ حالات ایسے ہوگئے ہیں لوگ پہلے چھ ماہ میں جوتے خریدتے تھے اب ایک سال بعد بھی کم ہی دکانوں کا رخ کرتے ہیں۔ ایسے میں کاروباری حضرات کیا کریں گے۔ دکان کا خرچ بھی اب تو جیب سے ادا کیاجارہاہے ۔ مجبورا تاجروں نے پھر کاروبارکو ہی بند کرنا ہے ۔
مائی ٹائم۔ حکومت سے کیا مطالبہ کرنا چاہیں گے؟
انور نیازی۔ حکومت سے کیا مطالبہ کرسکتے ہیں۔ حکومت کا جو دل چاہیے وہ کرتی رہتی ہے اس سے پہلے کبھی اس نے تاجروں کی سنی ہے جو اب سنے گی۔ تاہم پھر بھی حکومت سے درخواست کرتا ہوں کہ کرپشن پر قابو پائے ۔ کرپشن کے خاتمے سے کئی مسائل خود ہی حل ہوجائیں گے۔ ساتھ ہی ٹیکس سسٹم کو آسان بنایاجائے تاکہ ہر شخص اورہر تاجر وقت پر ٹیکس ادا کرسکے۔ٹیکس نظام کی پیچیدگیوں سے عوام ٹیکس دینے کتراتی ہے اورلوگ رشوت دے کر اپنے مسائل حل کروالیتے ہیں‘ اس سے نہ صرف حکومت کو نقصان ہورہاہے بلکہ کاروبار بھی کم ہورہاہے۔ اگر حکومت نے اب بھی اس معاملے میں سنجیدگی نہ دکھائی تو پھر ملک کا اللہ ہی حافظ ہے۔
مائی ٹائم۔ حکومت نے ہر چیز پر ٹیکس لگادیا ہے ‘آپ کیا کہتے ہیں؟
انور نیازی۔ دیکھیں ہمیں ٹیکس دینے میں کوئی عار نہیں۔ جائز ٹیکس جو ہے وہ حکومت ہم سے لے۔ مگر یہاں تو الٹی گنگا بہہ رہی ہے ‘ہر جائز وناجائز چیز پر ٹیکس اتنا لگادیاگیا ہے کہ تاجرو ں کی کمر توڑ دی ہے۔ پھر حکومت ٹیکس کے بدلے کوئی تاجروں کو کوئی پیکج بھی نہیں دے رہی۔ حکومت کو چاہیے کہ ٹیکس کے بدلے تاجروں کو کچھ ریلیف اور پیکج بھی فراہم کرے تاکہ کاروبار بند کرنے کی نوبت نہ آئے۔ ایکسپورٹ ختم ہوچکی ہے اور امپورٹ بڑھ رہی ہے ‘جس سے اخراجات بھی بڑھ رہے ہیں۔ اگر اب بھی حکومت نے اس سلسلے میں فوری اقدامات نہ اٹھائے تو پھربہت دیر ہوجائے گی۔
مائی ٹائم ۔ آپ میانوالی ویلفیئرایسوسی ایشن کے بھی صدر ہیں‘وہ کن بنیادی مقاصد پر کام کررہی ہے؟
انور نیازی۔ جی ہاں میں میانوارلی ویلفیئر ایسوسی کا صدر ہوں اورویلفیئر میانوالی برادری کی فلاح وبہبود کے لیے کام کررہی ہے۔ اس کا اہم مقصد غریب گھرانوں کی بچیوں کی شادی کرانا‘انہیں جہیز فراہم کرنا ہے ۔ اسی طرح ان گھروں میں موجود بچوں کے تعلیمی اخراجات کا بندوبست کرنا بھی میانوالی ویلفیئر ایسوسی ایشن کے مقاصد میں شامل ہے۔ ہیلتھ کے حوالے سے بھی کام کررہے ہیں مستحق مرےضوں کو علاج ومعالجہ کی سہولیات فراہم کرکے جہاں کے مالی معاملات کو خراب ہونے سے بچا رہے ہیں وہیں علاقائی مسائل کے حل کے لیے بھی دن رات کوشاں ہیں۔
مائی ٹائم۔ بلدیہ ٹاﺅن میں ہیلتھ کے معاملات انتہائی خراب ہیں‘ آپ کیا کہیں گے؟
انور نیازی۔ جی یہ بات آپ نے درست کہی ہے۔بلدیہ ٹاﺅن میں ہیلتھ کے معاملات واقعی بہت خراب ہیں۔ ہیلتھ انسپکٹر نے اپنے بیٹر بٹھا رکھے ہیں جو میڈیکل اسٹورزسے بھتہ وصول کرکے انہیں فراہم کرتے ہیں ‘پورے بلدیہ ٹاﺅن میں جعلی لیب کی بھرمار ہے مگر کوئی پوچھنے والا نہیں۔ ابھی کچھ دن پہلے ہی میرے بیٹے کی طبیعت خراب ہوئی۔ ڈاکٹر نے ٹیسٹ لکھ کر دیے جو ایک علاقائی لیبارٹری سے کرائے گئے تاہم جب رپورٹ ڈاکٹر کو دکھائی تو وہ مطمئن نہ ہوئے اور پھر دوبارہ دوسری لیبارٹری ٹیسٹ کرانے کے لیے کہاگیا‘جب دوسری لیبارٹری سے رپورٹ آئی تو دونوں میں انتہائی فرق تھا‘جس کے بعد ہم ضیاءالدین اسپتال چلے گئے اور وہاں پر بھی یہ فرق برقرار رکھا‘ اب میرے بیٹے کا علاج وہیں سے ہورہاہے مگر کہنے کی بات یہ ہے کہ ان جعلی لیبارٹری کی وجہ سے مرض کی تشخیص نہیں ہو پارہی یا پھر جو مرض ہے نہیں اس کی نشاندہی کردی جاتی ہے۔ ایک اچھے بھلے انسان کو بیمار بنانے میں ان لیبارٹریوں کا بہت بڑا ہاتھ ہے ۔ اس سلسلے میں نے کئی متعلقہ اداروں کو درخواست بھی دی ہے لیکن اس پر اب کوئی ایکشن نہیں لیاگیا۔
سندھ میں زچہ اور بچہ کی اموات میں واضح کمی
سندھ میں زچہ اور بچہ کی اموات میں واضح کمی
مائی ٹائم رپورٹ
صوبہ سندھ میں زچہ اور بچہ کی بقا کو بہتر بنانے کے لیے یوایس ایڈ کی جانب سے شروع کیے گئے فلیگ شپ پروگرام میٹرنل اینڈ چائلڈ سروائیول پروگرام کے تحت ہونے والی سرگرمیوں سے حاصل ہونے والے نتائج کو عام کرنے کے لیے ایک تقریب کا اہتمام کیا گیا۔ صوبائی وزیرصحت و بہبود آبادی ڈاکٹر عذرا فضل پیچوہو اور یو ایس ایڈ کے سندھ بلوچستان کے ڈائریکٹر مائیکل ہرشہشن نے کانفرنس سے خطاب کیا۔ کانفرنس میں صحت کے ذرائع تک رسائی، خاندانی منصوبہ بندی کی خدمات کی دستیابی اور ان کے استعمال کے لیے یو ایس ایڈ کے پروگرام کی خدمات پر روشنی ڈالی گئی۔ مائیکل ہرشہشن نے کہا، ” میں نہ صرف پروگرام کی اب تک کی کامیابیوں سے بلکہ احداف حاصل کرنے کے لیے صوبائی حکومت کی مخلصانہ اقدام سے بھی بہت متاثر ہوں، مجھے یقین ہے کہ ہم مل کر سندھ میں بچہ و زچہ کی اموات کو روکنے کے مقصد میں کامیابی حاصل کرلیںگے۔“ پچھلے تین سالوں میں میٹرنل اینڈ چائلد سروائیول پروگرام نے صحت اور بہبود آبادی کی وزارتوں کے ساتھ مل کر تولیدی، زچہ بچہ اور بچوں کی صحت کے شعبوں میں موثر منصوبے متعارف کرانے کے ساتھ ساتھ ایسے منصوبوں کی ہر طریقے سے حمایت بھی کی تاکہ حتمی مقصد کو حاصل کرکے زچہ و بچہ کی شرح اموات کو کم کیا جاسکے، ان کوششوں میں کلینیکل مانیٹرنگ اور مریض کے ساتھ فالو اپ کرنے کے لیے مددی مواد کا پیکیج بنانا، ماسٹر ٹرینرز کی تربیت، خواتین کی علاج معالجے کے معیاری طریقوں تک رسائی کو بہتر بنانا شامل ہے۔ پروگرام کے تحت بہبود آبادی کے افسران کی تربیت کرنے کے ساتھ ساتھ ان کے لیے رہنما ہدایات اور جانچ پڑتال کا طریقہ کار بھی وضع کیا۔ اس کے علاوہ حکومت کے مخصوص صحت مراکز میں حمل کے دوران ماں اور بچے کی صحت کے بارے میں مشاورتی مراکز بنائے گئے تاکہ لوگوں کو خاندانی منصوبہ بندی کے بارے میں معلومات اور مشورے دیے جاسکیں۔ پروگرام کے لیے امریکی حکومت نے 5.6 ملین ڈالر (تقریبا 896 ملین پاکستانی روپے)کی فنڈنگ کی۔
پاکستان میں 10 لاکھ کیسز میں سے 272 میں زچہ بچہ کی اموات واقع ہوجاتی ہیں جبکہ بلوچستان میں یہ شرح کئی گنا زیادہ ہے جہاں ایک لاکھ حاملہ خواتین میں سے 785 زندگی کی بازی ہار جاتی ہیں۔ یہ تعداد رجسٹر ڈکیسز کی ہے۔ جبکہ وہ تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے جو رجسٹریشن سے رہ جاتے ہیں۔بلوچستان حکومت نے مالی سال 2018-19کے لیے صحت کا بجٹ 19.4 بلین رکھا تھا۔ جس میں 14,419,518,000 روپے تنخواہ کی مد میں اور باقی پانچ ارب روپے کے آس پاس انتظامی معاملات کی مد میں رکھے گئے۔ بلوچستان میں صحت کے شعبے کے لیے مختص کیے جانے والے تھوڑے بہت بجٹ میں سے ایک خطیر رقم تنخواہوں کی مد میں چلی جاتی ہے۔ لیکن اس کے باوجود بلوچستان میں اس شعبے کی افرادی قوت کے خلا کو ہی پ ±ر نہیں کیا جاسکا۔
اٹھارویں ترمیم کے بعد شعبہ صحت صوبوں کے پاس آچکا ہے۔ اب یہ صوبائی حکومت پر منحصر ہے کہ وہ صحت کے شعبے میں اصلاحات لا کر اسے بہتری کی جانب گامزن کرے۔ لیڈی ہیلتھ وزیٹرز، لیڈی میڈیکل ایکسپرٹس اور لیڈی نرسز کی کمی کو پورا کرنے کے لیے نرسنگ اسکولوں کا قیام عمل میں لائے۔ یہ شعبہ بلوچستان کی سطح پر ناپید ہے۔ بولان میڈیکل کالج کے علاوہ اس وقت دیگر چار میڈیکل کالجز کا قیام عمل میں لایا جا چکا ہے۔ ان اداروں کے زیراہتمام نرسنگ اسکولز قائم کرکے لیڈی ہیلتھ اسٹاف کی کمی کو پورا کیاجا سکتا ہے۔ صحت کے مراکز کو وہ آلات اور مشینیں مہیا کیے جائیں جو شعبہِ زچہ بچہ کی ضروریات کو پورا کر سکے۔ اور سب سے اہم بات یہ کہ حالیہ دنوں سینٹ سے پاس ہونے والے ”18سال سے کم عمر شادی پر پابندی“ بل کا اطلاق کرکے صوبے بھر میں زچہ بچہ شرح اموات میں کمی لائی جا سکتی ہے۔
مائی ٹائم رپورٹ
صوبہ سندھ میں زچہ اور بچہ کی بقا کو بہتر بنانے کے لیے یوایس ایڈ کی جانب سے شروع کیے گئے فلیگ شپ پروگرام میٹرنل اینڈ چائلڈ سروائیول پروگرام کے تحت ہونے والی سرگرمیوں سے حاصل ہونے والے نتائج کو عام کرنے کے لیے ایک تقریب کا اہتمام کیا گیا۔ صوبائی وزیرصحت و بہبود آبادی ڈاکٹر عذرا فضل پیچوہو اور یو ایس ایڈ کے سندھ بلوچستان کے ڈائریکٹر مائیکل ہرشہشن نے کانفرنس سے خطاب کیا۔ کانفرنس میں صحت کے ذرائع تک رسائی، خاندانی منصوبہ بندی کی خدمات کی دستیابی اور ان کے استعمال کے لیے یو ایس ایڈ کے پروگرام کی خدمات پر روشنی ڈالی گئی۔ مائیکل ہرشہشن نے کہا، ” میں نہ صرف پروگرام کی اب تک کی کامیابیوں سے بلکہ احداف حاصل کرنے کے لیے صوبائی حکومت کی مخلصانہ اقدام سے بھی بہت متاثر ہوں، مجھے یقین ہے کہ ہم مل کر سندھ میں بچہ و زچہ کی اموات کو روکنے کے مقصد میں کامیابی حاصل کرلیںگے۔“ پچھلے تین سالوں میں میٹرنل اینڈ چائلد سروائیول پروگرام نے صحت اور بہبود آبادی کی وزارتوں کے ساتھ مل کر تولیدی، زچہ بچہ اور بچوں کی صحت کے شعبوں میں موثر منصوبے متعارف کرانے کے ساتھ ساتھ ایسے منصوبوں کی ہر طریقے سے حمایت بھی کی تاکہ حتمی مقصد کو حاصل کرکے زچہ و بچہ کی شرح اموات کو کم کیا جاسکے، ان کوششوں میں کلینیکل مانیٹرنگ اور مریض کے ساتھ فالو اپ کرنے کے لیے مددی مواد کا پیکیج بنانا، ماسٹر ٹرینرز کی تربیت، خواتین کی علاج معالجے کے معیاری طریقوں تک رسائی کو بہتر بنانا شامل ہے۔ پروگرام کے تحت بہبود آبادی کے افسران کی تربیت کرنے کے ساتھ ساتھ ان کے لیے رہنما ہدایات اور جانچ پڑتال کا طریقہ کار بھی وضع کیا۔ اس کے علاوہ حکومت کے مخصوص صحت مراکز میں حمل کے دوران ماں اور بچے کی صحت کے بارے میں مشاورتی مراکز بنائے گئے تاکہ لوگوں کو خاندانی منصوبہ بندی کے بارے میں معلومات اور مشورے دیے جاسکیں۔ پروگرام کے لیے امریکی حکومت نے 5.6 ملین ڈالر (تقریبا 896 ملین پاکستانی روپے)کی فنڈنگ کی۔
پاکستان میں 10 لاکھ کیسز میں سے 272 میں زچہ بچہ کی اموات واقع ہوجاتی ہیں جبکہ بلوچستان میں یہ شرح کئی گنا زیادہ ہے جہاں ایک لاکھ حاملہ خواتین میں سے 785 زندگی کی بازی ہار جاتی ہیں۔ یہ تعداد رجسٹر ڈکیسز کی ہے۔ جبکہ وہ تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے جو رجسٹریشن سے رہ جاتے ہیں۔بلوچستان حکومت نے مالی سال 2018-19کے لیے صحت کا بجٹ 19.4 بلین رکھا تھا۔ جس میں 14,419,518,000 روپے تنخواہ کی مد میں اور باقی پانچ ارب روپے کے آس پاس انتظامی معاملات کی مد میں رکھے گئے۔ بلوچستان میں صحت کے شعبے کے لیے مختص کیے جانے والے تھوڑے بہت بجٹ میں سے ایک خطیر رقم تنخواہوں کی مد میں چلی جاتی ہے۔ لیکن اس کے باوجود بلوچستان میں اس شعبے کی افرادی قوت کے خلا کو ہی پ ±ر نہیں کیا جاسکا۔
اٹھارویں ترمیم کے بعد شعبہ صحت صوبوں کے پاس آچکا ہے۔ اب یہ صوبائی حکومت پر منحصر ہے کہ وہ صحت کے شعبے میں اصلاحات لا کر اسے بہتری کی جانب گامزن کرے۔ لیڈی ہیلتھ وزیٹرز، لیڈی میڈیکل ایکسپرٹس اور لیڈی نرسز کی کمی کو پورا کرنے کے لیے نرسنگ اسکولوں کا قیام عمل میں لائے۔ یہ شعبہ بلوچستان کی سطح پر ناپید ہے۔ بولان میڈیکل کالج کے علاوہ اس وقت دیگر چار میڈیکل کالجز کا قیام عمل میں لایا جا چکا ہے۔ ان اداروں کے زیراہتمام نرسنگ اسکولز قائم کرکے لیڈی ہیلتھ اسٹاف کی کمی کو پورا کیاجا سکتا ہے۔ صحت کے مراکز کو وہ آلات اور مشینیں مہیا کیے جائیں جو شعبہِ زچہ بچہ کی ضروریات کو پورا کر سکے۔ اور سب سے اہم بات یہ کہ حالیہ دنوں سینٹ سے پاس ہونے والے ”18سال سے کم عمر شادی پر پابندی“ بل کا اطلاق کرکے صوبے بھر میں زچہ بچہ شرح اموات میں کمی لائی جا سکتی ہے۔
6ستمبر یوم دفاع اورکشمیریوں سے اظہار یکجہتی کا دن
” اے مرد مجاہد جاگ ذرا اب وقت شہادت ہے آیا“
6ستمبر یوم دفاع اورکشمیریوں سے اظہار یکجہتی کا دن
اس مٹی میں شہیدوں کا لہو شامل ہے ‘جب بھی وطن کو ضرورت پڑی اس کے بیٹوں نے لبیک کہا
قیام پاکستان سے لے کر بقاءپاکستان کا سفر ہمارے شہدا کی قربانیوں سے سجا ہوا ہے،آرمی چیف
مائی ٹائم رپورٹ
کراچی سمیت ملک بھرمیں 6 ستمبر کویوم دفاع پاکستان کشمیریوں کے ساتھ یکجہتی کے طور پرمنایا گیا جب کہ مرکزی تقریب جی ایچ کیو میں ہوئی۔وزیر اعظم عمران خان نے یوم دفاع پر ملک بھر میں یوم یکجہتی کشمیر منانے کی ہدایت کی، جس پر سرکاری اداروں اور صوبائی دارالحکومتوں میں یوم دفاع اور کشمیر کی مختلف تقریبات منعقد ہوئیں۔مزار قائد اور مزار اقبال پر گارڈز کی تبدیلی کی تقریب ہوئی۔ مزار قائد پر فضائیہ کے کیڈٹس جبکہ مزار اقبال پر پاکستان رینجرز پنجاب کے دستے نے سلامی دی اور گارڈز کی ذمہ داری سنبھالی۔ میانی صاحب قبرستان میں میجر شبیر شریف شہید کی قبر پر پھول چڑھائے گئے اورفاتحہ خوانی ہوئی، پاک فوج کے جوانوں نے سلامی دی۔یوم دفاع پاکستان کی مرکزی تقریب جی ایچ کیو راولپنڈی میں ہوئی جس میں شہدا کو سلام پیش کیا گیا۔ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے یادگار شہدا پر حاضری دی، پھولوں کی چادر چڑھائی اور حاضرین سے خطاب کیا۔ تقریب میں 1965ءکی جنگ کی دستاویزی فلم بھی دکھائی گئی۔
برکی علاقہ میں میجر عزیز بھٹی شہید، باٹا پور اور مناواں میں 1965ءکی جنگ میں جانوں کا نذرانہ پیش کرنے والے پاک فوج کے شہدا کی یادگاروں پر حکومتی، فوجی شخصیات اور عام شہریوں کی طرف سے پھول چڑھائے گئے اور فاتحہ خوانی کی گئی۔پاکستان ایئر فورس کے زیر اہتمام ائیر بیس لاہور میں پاک فضائیہ کے زیر استعمال جنگی طیاروں اور دیگر سازو سامان کی نمائش ہوئی جبکہ ایئر فورس کے جدید طیاروں نے فلائی مارچ کیا۔ وفاقی وزرا، مختلف حکومتی اور سیاسی شخصیات شہداءکے گھر گئیں اور ان کے اہل خانہ سے ملاقات کی۔
جی ایچ کیو مےں ہونے والی یوم دفاع کی مرکزی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے آرمی چیف جنرل قمرجاوید باجوہ کا کہنا تھا کہ کشمیرتکمیل پاکستان کا نا مکمل ایجنڈا ہے اورپاکستان کشمیرکوکبھی بھی حالات کے رحم وکرم پرتنہا نہیں چھوڑے گا۔آرمی چیف جنرل قمرجاوید باجوہ نے جی ایچ کیومیں یوم شہدا کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ قیام پاکستان سے لے کر بقاءپاکستان کا سفر ہمارے شہدا کی قربانیوں سے سجا ہوا ہے، پاکستان کی بنیادوں میں شہیدوں کا لہو شامل ہے، جب بھی ضرورت پڑی وطن کے بیٹوں نے لبیک کہا، جب تک ہمارے پاس ایسے والدین موجود ہیں جو وطن پر جان قربان کرنے والے سپوت پیدا کرتے ہیں تب تک پاکستان کو کوئی قوت نقصان نہیں پہنچا سکتی۔ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے کہا کہ پاکستان امن و سلامتی کا پیغام دیتا ہے اوریہ پیغام پورے خطے اور دنیا کے لیے ہے۔
آرمی چیف نے اپنے خطاب میں کشمیرمیں جاری بربریت سے متعلق کہا کہ کشمیرمیں ریاستی دہشتگردی عروج پرہے، کشمیر تکمیل پاکستان کا نا مکمل ایجنڈا ہے۔ کشمیر پاکستان کی شہہ رگ ہے، پاکستان کشمیرکوکبھی بھی حالات کے رحم و کرم پرتنہا نہیں چھوڑے گا جب کہ کشمیریوں پر ظلم ہمارے صبر کا امتحان ہے۔ کشمیر کا مسئلہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل ہونا چاہیے، کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں عالمی تنظیموں کیلیے لمحہءفکریہ ہیں۔کراچی میں مختلف اسکولوں ‘کالجوں اورسماجی وسیاسی شخصیات کی جانب سے بھی یوم دفاع کے موقع پر تقریبات کا اہتمام کیاگیا‘جس میں طلبہ وطالبات کی جانب سے ٹیبلو پیش کیے گئے
6ستمبر یوم دفاع کے طورپر ہم اس لیے مناتے ہیں کہ پاکستان پر1965ءمیں ہندوستان کی طرف سے جنگ کا تھوپا جانا پاکستانی قوم کے ریاستی نصب العین دوقومی نظریہ،قومی اتحاد اور حب الوطنی کو بہت بڑا چیلنج تھا۔ جسے جری قوم نے کمال و قار اور بے مثال جذبہ حریت سے قبول کیا اور لازوال قربانیوں کی مثال پیش کر کے زندہ قوم ہونے کاثبوت دیا۔ دوران جنگ ہر پاکستانی کو ایک ہی فکر تھی کہ ا ±سے دشمن کا سامنا کرنا اور کامیابی پانا ہے۔جنگ کے دوران نہ تو جوانوں کی نظریں دشمن کی نفری اور عسکریت طاقت پر تھی اور نہ پاکستانی عوام کا دشمن کو شکت دینے کے سوا کوئی اورمقصد تھا۔ تمام پاکستانی میدان جنگ میں کود پڑے تھے۔اساتذہ، طلبہ، شاعر، ادیب، فنکار، گلوکار ، ڈاکٹرز، سول ڈیفنس کے رضا کار ،مزدور،کسان اور ذرائع ابلاغ سب کی ایک ہی دھن اور آواز تھی کہ” اے مرد مجاہد جاگ ذرا اب وقت شہادت ہے آیا“ستمبر 1965ءکی جنگ کا ہمہ پہلو جائز لینے سے ایک حقیقی اور گہری خوشی محسوس ہوتی ہے کہ وسائل نہ ہونے کے باوجود اتنے بڑے اور ہر لحاظ سے مضبوط ہندوستان کے مقابلے میں چھوٹے سے پاکستان نے وہ کون سا عنصر اورجذبہ تھا، جس نے پوری قوم کو ایک سیسہ پلائی ہوئی نا قابل عبور دیوار میں بدل دیا تھا۔ مثلاً ہندوستان اور پاکستان کی مشترکہ سرحد”رن آف کچھ“ پر طے شدہ قضیہ کو ہندوستان نے بلا جواز زندہ کیا فوجی تصادم کے نتیجہ میں ہزیمت اٹھائی تو یہ اعلان کردیا کہ آئندہ ہندوستان پاکستان کے ساتھ جنگ کے لئے اپنی پسند کا محاذ منتخب کرے گا اس کے باوجود پاکستان نے ہندوستان سے ملحقہ سرحدوں پر کوئی جارحانہ اقدام نہکیے تھے۔ صرف اپنی مسلح افواج کومعمول سے زیادہ الرٹ کررکھا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ چھ ستمبر کی صبح جب ہندوستان نے حملہ کیا تو آناً فاناً ساری قوم، فوجی جوان اور افسر سارے سرکاری ملازمین جاگ کر اپنے اپنے فرائض کی ادائیگی میں مصروف ہوگئے۔ صدر مملکت فیلڈ مارشل محمد ایوب خان کے ایمان افروز اور جذب مرد حجاہد سے لبریزقوم سے خطاب کی وجہ سے ملک اللہ اکبر اورپاکستان زندہ باد کے نعروں سے گونج ا ±ٹھا۔فیلڈ مارشل ایوب خان کے اس جملے ”پاکستانیو! اٹھو لا الہ الا اللہ کا ورد کرتے ہوئے آگے بڑھو اوردشمن کو بتا دو کہ اس نے کس قوم کو للکارا“ان کے اس خطاب نے قوم کے اندر گویا بجلیاں بھردی تھیں۔ پاکستان آرمی نے ہر محاذ پر دشمن کی جارحیت اور پیش قدمی کو حب الوطنی کے جذبے اورپیشہ وارانہ مہارتوں سے روکا ہی نہیں، انہیں پسپا ہونے پر بھی مجبور کردیا تھا۔ ہندوستانی فوج کے کمانڈر انچیف نے اپنے ساتھیوں سے کہا تھا کہ وہ لاہور کے جم خانہ میں شام کو شراب کی محفل سجائیں گے۔ ہماری مسلح افواج نے جواب میں کمانڈر انچیف کے منہ پر وہ طمانچے جڑے کہ وہ مرتے دم تک منہ چھپاتا پھرا۔ لاہور کے سیکٹر کو میجر عزیز بھٹی جیسے سپوتوں نے سنبھالا، جان دے دی مگر وطن کی زمین پر دشمن کا ناپاک قدم قبول نہ کیا۔
دانش راجپوت
سندھوکی تہذیب وثقافت
کب تک اپنا وجود برقرار رکھ پائے گی؟
قدرتی وسائل سے مالامال دنیا کا ساتواں بڑا سندھوڈیلٹااورتمر کے جنگلات تباہی کے کنارے پرپہنچ گئے
سندھ ان گنت قدرتی وسائل سے مالا مال صوبہ ہے۔ اس دھرتی پربہنے والے دریائے سندھ کا شمار دنیا کے بڑے بڑے دریاو ¿ں میں کیا جاتا ہے۔ کیلاش کی جھیل مانسہرہ کے برفانی پانی سے نکلنے والا یہ عظیم دریا ایک چھوٹے سے مقام ”دم چک“ سے لداخ میں داخل ہوجاتا ہے اور یہاں سے سینکڑوں میلوں کا سفر طے کرتے ہوئے بحیرہ عرب سے ہم آغوش ہوتا ہے۔ بحیرہ عرب کی شفاف نیلی موجوں اور دریائے سندھ کے گدلے پانی کا گزشتہ ہزار برسوں سے ملاپ ہی اصل میں اس سرزمین کی تشکیل کا جواز بنا جسے آج ہم ” انڈس ڈیلٹا“ کہتے ہیں۔ محققین کے مطابق ڈھائی ہزار سال قبل جب ایک یونانی مورخ ہیروڈوٹس دریائے نیل کے اس ان
تہائی اختتامی حصے تک پہنچا جہاں وہ بحیرہ روم میں گرتا تھا وہاں اس یونانی مورخ نے دیکھا کہ دریا کا پانی تو سمندر میں گر جاتا ہے لیکن اس کے ساتھ آنے والی ریت و مٹی بدستور ایک قطعہ اراضی تشکیل کرتی چلی جارہی ہے۔ اس ابھرتی زمین کا بغور مشاہدہ کیا گیا تو اس کی ہیبت تکون پائی۔ تکون یا مثلث کو رومن زبان میں ”ڈیلٹا“ کہا جاتا ہے۔ لہذا ہیروڈوٹس نے دریائے نیل کے ختم ہونے والے دہانے سے بحیرہ روم کی جانب بڑھتے ہوئے اس مثلث نما قطعہ اراضی کو ’ڈیلٹا‘ کا نام دے دیا۔ یوں دریاو ¿ں کے اختتامی دہانوں پر تخلیق پانے والی یہ نئی زمین رفتہ رفتہ پوری دنیا میں ہی ڈیلٹا کے اصطلاحی نام سے مشہور ہوگئی۔ آج کرہ ارض کا کم وبیش دوفی صد رقبہ انہی ڈیلٹائی علاقوں پرمشتمل ہے۔ سندھو کے ڈیلٹا کو دنیا بھر میں ساتویں نمبر پر نمایاں مقام حاصل ہے۔ تاریخ دانوں اور مورخین کا ماننا ہے کہ دریائے سندھ کے کناروں نے ہمیشہ نئی تہذیبوں کو جنم دیا اور اس کے پانی نے ہمیشہ تہذیبوں اورثقافتوں کی آبیاری کی۔ دریائے سندھ نے نہ صرف اپنی راہ گزر کے کناروں بلکہ اختتام پربھی ایک شاندار تہذیب کوجنم دیا تھا۔ اس تہذیب نے وہاں جنم لیا جہاں دریاءکے گدلے پانی کے بپھرے ریلوں نے سمندر کی نیلی موجوں کومستقل پیچھے دھکیلا اوراپنے ساتھ لائی ہوئی ریت ومٹی کے چھوٹے چھوٹے ذرات کو ایک دوسرے سے پیوست کرکے اس سنگم پرہزار برس کی ریاضت سے زمین تشکیل دی۔دریائے سندھ نے سمندر اوراپنی تخلیق کردہ دلدلی زمین کے درمیان تمر کے گھنے جنگلات کی باڑ باندھ کرحد قائم کی اورسمندر ی کناروں کومچھلیوں کی دولت کابیش بہا خزانہ عطا کیا۔ اس طرح سندھوڈیلٹا کی زرخیز زمین پرایک نئی تہذیب کاجنم ہوا جسے ہم ( تمرتہذیب یامینگرووز سویلائزیشن)کہہ سکتے ہیں۔
دریائے سندھ کے ڈیلٹا کی ہی یہ عطا ہے کہ دنیا بھر میں اس نے پاکستان کوتمر کے ساحلی ودلدلی جنگلات کاحامل 14واں بڑا ملک قرار دلوایا۔دریائے سندھ کے ڈیلٹا کاعروج بے مثال تھا جس کا ڈنکا لاکھوں ایکڑ اراضی پرلہلہاتی فصلوں،خوشحال چہروں کی دمکتی آنکھوں،ساحل پرتاجروں اور جہازوں کے ہجوم کی صورت مدتوں جہاں بھر میں بجتا رہا۔یہ کوئی ڈیڑھ صدی پرانی بات ہی ہوگی جب ڈیلٹا کی ترقی اس کے لوگوں کی معاشی خوشحالی اوریہاں کی مقبول زرعی پیداوار کے چرچے صحیح معنوں میں سات سمندر پار تک سنے جاتے تھے۔اس کے باشندوں اورمورخین کیلئے یہ ماضی کسی ”طرہ امتیاز“ سے کم نہیں مگرکسی کوخبر نہیں کہ یہ زمین اوراس کی تہذیب وثقافت کب تک اپنا وجود برقرار رکھ پائے گی اور کب تاریخ کے طالبعلم اسے ماضی کی ڈوب جانے والی تہذیب وثقافت کے طور پرپڑھنا شروع کردیں گے ۔ڈیلٹا کے حالات دیکھ کر یہ باآسانی کہہ سکتے ہیں کہ شاید اس میں بہت زیادہ وقت نہیں لگے گا۔
ماحولیاتی تحفظ پرکام کرنے والے ماہرین کی جانب سے کی گئی ایک نئی تحقیق کے مطابق ملک میں تمر کے جنگلات بہت تیزی سے ختم ہورہے ہیں ،1992ءسے2001ءکے درمیان ملکی جنگلات میں 19فیصد کمی واقع ہوئی ہے اورانڈس ڈیلٹا میں اس کی شرح بلندترین ہے اوربہت سے دیگرعوامل میں سے ایک اہم وجہ کوٹری ڈاو ¿ن اسٹریم میں 1991ءکے پانی معاہدے کے مطابق پانی نہ چھوڑا جانا ہے۔تمر کے ماحولیاتی فوائد سے ہم سب ہی آگاہ ہیں ۔تمرسیلاب اورزمینی کٹاو ¿ں کوروکنے کے علاوہ سمندری طوفانوں اورسائیکلون میں اہم رکاوٹ تصور کئے جاتے ہیں۔جنگلات کے خاتمے کی چند اہم وجوہات میں آب وہوا میں تبدیلی کاحل انسانی قابو سے باہر ہے لیکن ریاست دوسرے اہم عوامل پربھی توجہ دے سکتی ہے جن میں جنگلات کے بے دریغ کٹاو ¿ کی روک تھام سرفہرست ہے۔ اس تحقیق میں جنگلات کی تباہی کوروکنے کے چند اہم حل بھی فراہم کئے گئے ہیں جن میں جنگلات کی زمین کے کسی دوسرے استعمال پرپابندی اور جنگلات کے انتظام کامکمل منصوبہ شامل ہے۔ ساتھ ہی جنگلات کے اطراف میں رہنے والے لوگوں کوتعلیم اورآگاہی کے ذریعے ان اہم علاقوں کی حفاظت میں شامل کیاجانا بے حدضروری ہے۔اگراسی طرح تمر اوردیگر اقسام کے جنگلات مسلسل کاٹے جاتے رہے تو اس کے منفی اثرات جنگلی حیات پربھی مرتب ہونگے ۔
1999ءکاسمندری طوفان شاید اس وقت بھی لوگوں کویاد ہو جب اس طوفان نے ٹھٹھہ اوربدین کے ساحلی علاقوں میں بڑی تباہی پھیلادی تھی جس کے اثرات آج بھی ان علاقوں میں موجود ہیں ۔پاکستان کی بانسبت پڑوسی ملک بھارت میں تمر کے جنگلات کی حفاظت کیلئے وہاں کی سرکار بہترانتظامات واقدامات کرتی ہے ،شاید یہی وجہ ہے کہ جب 26دسمبر2004ءمیں ہندوستانی ریاست تامل ناڈو اور1999ءمیں اڑیسا ریاست میں خطرناک سمندری طوفان نے جنم لیا تو یہی تمر کے جنگلات تھے جنہوں نے اس طوفان کا سامنا کیا اور اسے کسی بڑی تباہی کا باعث بننے سے روک دیا تھا۔دیکھاجائے تو 50سال قبل انڈس ڈیلٹا میں تمر کے جنگلات میں8اقسام کے درخت موجود تھے جواب کم ہوکر 4 اقسام کے رہ گئے ہیں۔ 1960ءکے عشرے میں انڈس ڈیلٹا میں لگ بھگ3لاکھ63ہزار ہیکٹرز یعنی12لاکھ ایکڑ ز پرمشتمل تمر کے جنگلات موجودتھے جومختلف عشروں میں کمی کے باعث اب ایک لاکھ 6ہزارہیکٹرز تک محدود ہوکررہ گئے ہیں جس میں بھی مزید کمی رونما ہوتی جارہی ہے۔رواں سال کے ماہ مئی میں حیاتیاتی تنوع کے عالمی دن کے موقع پرسندھ کوسٹل ڈیولپمنٹ اتھارٹی اورایشیائی ترقیاتی بنک کے تعاون سے حکومتی سطح پر ٹھٹھہ کے نزدیک ساحلی پٹی سے متصل کاروچھان اورکیٹی بندر کے ڈیلٹائی جزائر میں 7 لاکھ 28ہزار تمر کے پودے لگا کرنیاعالمی ریکارڈ قائم کیا گیا ہے اور اس طرح پاکستان کانام دوبارہ گینز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں پہلے نمبرپرآگیا ہے۔ اس سے قبل بھارت نے ایک ہی دن میں6لاکھ11 ہزار پودے لگا کر عالمی ریکارڈ قائم کیا تھا۔
بلدیہ ڈگری کالج کی حالت زار
خصوصی رپورٹ
محمد عارف میمن
تعلیم معاشرے میں رہن سہن اورجینے کا ہنر دیتی ہے ،جس طرح ہوا ،پانی اورآگ کے بناءزندگی نہیں ،اسی طرح تعلیم کے بغیر انسان بھی نامکمل ہے۔حضرت محمد ﷺ کا فرمان ہے ٬٬ تعلیم حاصل کرو چاہیے تمہیں چین جانا پڑے،، اس بات سے اندازہ لگالیں کہ تعلیم مہذب معاشرے کے لیے کتنی اہمیت کی حامل ہے۔ تعلیم یافتہ معاشرہ جہالت سے پاک ہوتا ہے ،ہم اکثر دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کا حوالہ دیتے ہیں ان لوگوں نے اتنی ترقی کرلی کہ اب چاند سے آگے کی بات کرتے ہیں ۔ لیکن پاکستان دنیا کا واحد ملک ہے جہاں تعلیم کے میدان میں کوئی خاطر خواہ توجہ نہیں دی گئی۔ دیگر شہروں کا حال کسی اور دن پر چھوڑتے ہیں ابھی ہم کراچی کی بات کرتے ہیں جیسے دنیا کا ساتواں بڑا شہر ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔
سندھ حکومت تعلیم کے معاملے کتنی سنجیدہ ہے یہ دیکھنے کے لیے ہم نے بلدیہ ٹاﺅن کا دورہ کیا جہاں بلدیہ ٹاﺅن کا واحد بلدیہ ڈگری بو ائز کالج موجود ہے۔ سابق ناظم اعلیٰ کراچی نعمت اللہ خان صاحب نے 25 اپریل 2004ءکو بلدیہ ڈگری کالج بوائز کا افتتاح کیا ۔ نعمت اللہ خان صاحب نے اس کالج کا افتتاح کیا اور اس عزم کا اعادہ کیا کہ ابھی تو یہ بلدیہ کا واحد بوائز ڈگری کالج ہے مگر یہ واحد رہے گا نہیں بلکہ یہاں مزید کالجز بنائے جائیں گے،انہوںنے اس امید کا بھی اظہار کیا کہ اس کالج میں شہر کے دیگر کالجز سے بہتر ماحول اور معیاری تعلیم فراہم کی جائے گی۔ تاہم ان کی یہ امیدیں دم توڑ چکی ہیں۔ کرپشن نے جہاں ملک کو دیمک کی چاٹ کر کھوکھلا کردیا ہے وہیں تعلیمی میدانوں میں بیٹھے گدھ بھی تعلیم جیسے مقدس پیشے کو پیسہ بنانے کی مشین سمجھ بیٹھے ہیں۔
بلدیہ ڈگری کالج کی حالت زار دیکھ کر کوئی نہیں کہہ سکتا کہ یہ ایک تعلیمی درس گاہ ہے ۔ مذکورہ کالج اب نشئی افراد کا ٹھکانہ بن چکا ہے ،دیوار ٹوٹنے سے آوارہ کتوں کی آمد ورفت بھی بڑھ چکی ہے۔ بلدیہ ڈگری کالج جہاں میڈیکل ،کامرس اورآرٹس میں داخلوں کا سلسلہ جاری ہے وہیں اس کالج میں نہ پینے کا پانی موجود ہے اور نہ بجلی دستیاب ہے۔ کلاس رومز کے پنکھے ٹوٹ پھوٹ کاشکار ہیں ،فرنیچرز کی حالت بھی قابل دید ہے ،جس پر انسان کے بجائے کتوں نے ڈیرے جما رکھے ہیں۔ دیواروں پر بڑی بڑی دراڑیں اس بات کی نشاندہی کررہی ہیں کہ کبھی بھی یہاں کوئی بڑا حادثہ رونما ہوسکتا ہے۔
سندھ حکومت کے ماتحت کالج کی حالت زار کے سلسلے میںجب پرنسپل سے ملاقات کی تو معلوم ہوا کہ پرنسپل کی سیٹ ایک عرصے سے خالی پڑی ہوئی ہے اور پروفیسر مدثر جلیل اس وقت انچارج کے طورپر کالج کو چلا رہے ہیں۔ پروفیسرز کی تعداد معلوم کرنے پرپتہ چلا کہ کالج میں ضرورت 22پروفیسرز کی ہے مگر دستیاب 15ہیں ،ان میں سے بھی 3اہم سبجیکٹ کیمسٹری ،انگلش اورکامرس کے پروفیسر کا ایک ایسے کالج میں تبادلہ کردیاگیا ہے جسے گھوسٹ کالج کے طورپر جانا جاتا ہے۔دو سال سے نائن ای گورنمنٹ ڈگری کالج کانہ تو کیپس میں کوئی نام ونشان ہے اور نا ہی گورنمنٹ کالجز کی لسٹ میں اسے کہیں شامل کیاگیا ہے۔ جب کہ مذکورہ کالج میں گزشتہ دو سال سے ایک بھی داخلہ نہیں ہوا۔ ایک گھوسٹ کالج میں جہاں کوئی طالب علم سرے سے موجود ہی نہیں وہاں اہم پرفیسرز کا تبادلہ شکوک وشبہات پیدا کررہا ہے ۔بلدیہ گورنمنٹ ڈگری کالج میں پانی کا کنکشن سرے سے موجود ہی نہیں لیکن اس کے باوجود واٹر بور ڈکی جانب سے بیس لاکھ روپے کا بل بھیجا گیا۔ بجلی بھی غیرقانونی استعمال کی جارہی ہے ‘کالج کا ذاتی میٹر تک موجود نہیں ‘لیکن کا بھی بل آرہا ہے۔ ٹیلی فون کنکشن بل کی عدم ادائیگی پر کٹ چکے ہیں ۔ کالج میں لائبریری کے لیے روم اورالماریاں تو موجود ہیں مگر نہ تو روم میں بیٹھنے لائق فرنیچر ہے اور نہ ہی الماریوں میں کوئی کتاب رکھی گئی ہے۔
ساتھ ہی کالج میں لیب کے نام پر ایک روم موجود ہے تاہم وہاں پر کسی قسم کی سہولیات میسر نہیں۔ گراﺅنڈ میں جنگلی جھاڑیوں نے قبضہ جمالیا ہے۔ کالج کی دیوار کے ساتھ موجود فٹ پاتھ کو لوگوں نے کچرا کنڈی بنا رکھا ہے جہاں روزانہ کی بنیاد پر سینکڑوں ٹن کچرا پھینکاجانا معمول بن چکا ہے۔
آج سے تین سال قبل 14اگست کی رات کالج کا ایک بلاک نذر آتش کردیاگیا تھا جس کی ایف آئی آر بھی موجود ہے ‘تاہم اس کے ملزمان بھی تاحال قانون کی گرفت میں نہ آسکے ۔ کانفرنس ہال میں ایک نامعلوم افراد نے اپنی رہائش اختیار کررکھی ہے جہاں پر کسی کو جانے کی اجازت نہیں ۔ واش رومز کئی عرصے سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوکر استعمال کے قابل نہیں رہے۔ اس حوالے سے کالج انچارج کا کہنا تھا کہ ہم اپنی مدد آپ کے تحت کالج کے انتظامات کو چلا رہے ہیں۔ کالج میں مالی موجود ہے مگر کہاں ہے اس کا کسی کو علم نہیں‘ دو چوکیدار ہیں مگر ان کا بھی اتا پتہ نہیں۔ صفائی ستھرائی کےلیے جمعدار پہلے موجودتھا مگراس کا قتل ہوگیا جس کے باعث کالج میں صفائی ستھرائی کے لیے پرائیوٹ جمعدار کو ماہانہ تین ہزار روپے ادا کرنے کے بعد کچھ حالت بہتر نظرآتی ہے ‘تاہم وہ بھی اکثر غیر حاضر رہتا ہے ۔ انچارج نے مزید بتایا کہ ہم نے معتدد بار ایجوکیشن سیکرٹری سے درخواست کی ہے کہ کالج میں بنیادی ضروریات مہیا کی جائیں تاہم اس پر اب تک عمل نہیں ہوسکا ہے۔ ساتھ ہی ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ نائن ای ڈگری کالج میں یہاں سے دو پیون ‘دو کلرک اور تین پروفیسر کے جانے کے بعد اس کالج کے حالات مزید گھمبیر صورت اختیار کرچکے ہیں۔ سینئر کلرک نہ ہونے کے باعث ان کا کام بھی ہمیں ہی کرناپڑتا ہے ‘کالج انتظامیہ کا کوئی نام ونشان نہیں۔ جب کہ آرٹس سبجیکٹ کا کوئی ٹیچر کالج میں موجود نہیں ‘اسلامیات ‘مطالعہ پاکستان کا ٹیچر بھی اب تک کالج کو نہیں دیاگیا۔ انچارج نے بتایا کہ کالج زیر تعمیر ہی ہمیں دے دیاگیا تھا جس کی وجہ سے اس کا گورنمنٹ لسٹ میں نام شامل نہیں۔ تاہم ٹھیکیدار نے پی سی ون اورپی سی فور مانگا تھا جس پرہم نے صرف پی سی فور دیا ‘کیوں کہ کالج اب بھی زیر تعمیر ہے اورہم اپنی مدد آپ کے تحت کام کررہے ہیں ‘ان کا کہنا تھا کہ کالج کی دیوار بہت چھوٹی تھیں جسے ہم نے مزید دو فٹ اونچا کرایا ہے ۔ اس مد میں گورنمنٹ کی جانب کوئی مددفراہم نہیں کی گئی۔ انچارج کا کہنا تھا کہ اسٹیشنری ‘فوٹو کاپی ‘فارمز اوردیگر سامان بھی ہمیں اپنی جیب سے ہی خریدنا پڑ رہا ہے ۔ کالج میں ایک بھی کمپیوٹر نہیں جس کی وجہ سے ہمیں کافی پریشانی کا سامنا کرناپڑتا ہے۔
تین سال قبل کالج فنڈز ختم کردیاگیا جب کہ اے جی سندھ سے منظور شدہ فنڈ کاپچاس فیصد بھی کالج کو نہیں دیاگیا‘ساتھ ہی 2018-19میں اب تک کسی بھی کالج کو کسی قسم کا فنڈ نہیں دیاگیا۔ کالج میں 19میں سے 13اسسٹنٹ پروفیسر کی سیٹیں خالی ہیں ۔ اس کے باوجود یہاں سے پروفیسر اوراسٹاف کو شفٹ کیاگیا۔ کالج کی ستر فیصد دیوار آ ج بھی ٹوٹی ہوئی ہے جس کی کئی درخواستیں متعلقہ حکام کو بجھوائی گئی ہیں لیکن اس پر بھی اب تک کوئی توجہ نہیں دی گئی۔ کالج کو فوری طورپر لائبریرین ‘لائبریری ‘سینئروجونیئر کلرک‘پروفیسرزکی ضرورت ہے اوریہ وہ بنیادی چیزیں ہیں جن سے کالج کا نظام چلتا ہے اگر یہ ہی موجود نہیں ہوگا تو پھر تعلیم کا اللہ ہی حافظ ہے۔ ساتھ ہی پانی وبجلی کے کنکشن بھی مہیا کیے جانے چاہیں تاکہ اسٹاف اورطلبہ اپنی ضرورت کے لیے کالج سے باہر نہ جائیں۔
خصوصی رپورٹ
محمد عارف میمن
تعلیم معاشرے میں رہن سہن اورجینے کا ہنر دیتی ہے ،جس طرح ہوا ،پانی اورآگ کے بناءزندگی نہیں ،اسی طرح تعلیم کے بغیر انسان بھی نامکمل ہے۔حضرت محمد ﷺ کا فرمان ہے ٬٬ تعلیم حاصل کرو چاہیے تمہیں چین جانا پڑے،، اس بات سے اندازہ لگالیں کہ تعلیم مہذب معاشرے کے لیے کتنی اہمیت کی حامل ہے۔ تعلیم یافتہ معاشرہ جہالت سے پاک ہوتا ہے ،ہم اکثر دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کا حوالہ دیتے ہیں ان لوگوں نے اتنی ترقی کرلی کہ اب چاند سے آگے کی بات کرتے ہیں ۔ لیکن پاکستان دنیا کا واحد ملک ہے جہاں تعلیم کے میدان میں کوئی خاطر خواہ توجہ نہیں دی گئی۔ دیگر شہروں کا حال کسی اور دن پر چھوڑتے ہیں ابھی ہم کراچی کی بات کرتے ہیں جیسے دنیا کا ساتواں بڑا شہر ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔
سندھ حکومت تعلیم کے معاملے کتنی سنجیدہ ہے یہ دیکھنے کے لیے ہم نے بلدیہ ٹاﺅن کا دورہ کیا جہاں بلدیہ ٹاﺅن کا واحد بلدیہ ڈگری بو ائز کالج موجود ہے۔ سابق ناظم اعلیٰ کراچی نعمت اللہ خان صاحب نے 25 اپریل 2004ءکو بلدیہ ڈگری کالج بوائز کا افتتاح کیا ۔ نعمت اللہ خان صاحب نے اس کالج کا افتتاح کیا اور اس عزم کا اعادہ کیا کہ ابھی تو یہ بلدیہ کا واحد بوائز ڈگری کالج ہے مگر یہ واحد رہے گا نہیں بلکہ یہاں مزید کالجز بنائے جائیں گے،انہوںنے اس امید کا بھی اظہار کیا کہ اس کالج میں شہر کے دیگر کالجز سے بہتر ماحول اور معیاری تعلیم فراہم کی جائے گی۔ تاہم ان کی یہ امیدیں دم توڑ چکی ہیں۔ کرپشن نے جہاں ملک کو دیمک کی چاٹ کر کھوکھلا کردیا ہے وہیں تعلیمی میدانوں میں بیٹھے گدھ بھی تعلیم جیسے مقدس پیشے کو پیسہ بنانے کی مشین سمجھ بیٹھے ہیں۔
بلدیہ ڈگری کالج کی حالت زار دیکھ کر کوئی نہیں کہہ سکتا کہ یہ ایک تعلیمی درس گاہ ہے ۔ مذکورہ کالج اب نشئی افراد کا ٹھکانہ بن چکا ہے ،دیوار ٹوٹنے سے آوارہ کتوں کی آمد ورفت بھی بڑھ چکی ہے۔ بلدیہ ڈگری کالج جہاں میڈیکل ،کامرس اورآرٹس میں داخلوں کا سلسلہ جاری ہے وہیں اس کالج میں نہ پینے کا پانی موجود ہے اور نہ بجلی دستیاب ہے۔ کلاس رومز کے پنکھے ٹوٹ پھوٹ کاشکار ہیں ،فرنیچرز کی حالت بھی قابل دید ہے ،جس پر انسان کے بجائے کتوں نے ڈیرے جما رکھے ہیں۔ دیواروں پر بڑی بڑی دراڑیں اس بات کی نشاندہی کررہی ہیں کہ کبھی بھی یہاں کوئی بڑا حادثہ رونما ہوسکتا ہے۔
سندھ حکومت کے ماتحت کالج کی حالت زار کے سلسلے میںجب پرنسپل سے ملاقات کی تو معلوم ہوا کہ پرنسپل کی سیٹ ایک عرصے سے خالی پڑی ہوئی ہے اور پروفیسر مدثر جلیل اس وقت انچارج کے طورپر کالج کو چلا رہے ہیں۔ پروفیسرز کی تعداد معلوم کرنے پرپتہ چلا کہ کالج میں ضرورت 22پروفیسرز کی ہے مگر دستیاب 15ہیں ،ان میں سے بھی 3اہم سبجیکٹ کیمسٹری ،انگلش اورکامرس کے پروفیسر کا ایک ایسے کالج میں تبادلہ کردیاگیا ہے جسے گھوسٹ کالج کے طورپر جانا جاتا ہے۔دو سال سے نائن ای گورنمنٹ ڈگری کالج کانہ تو کیپس میں کوئی نام ونشان ہے اور نا ہی گورنمنٹ کالجز کی لسٹ میں اسے کہیں شامل کیاگیا ہے۔ جب کہ مذکورہ کالج میں گزشتہ دو سال سے ایک بھی داخلہ نہیں ہوا۔ ایک گھوسٹ کالج میں جہاں کوئی طالب علم سرے سے موجود ہی نہیں وہاں اہم پرفیسرز کا تبادلہ شکوک وشبہات پیدا کررہا ہے ۔بلدیہ گورنمنٹ ڈگری کالج میں پانی کا کنکشن سرے سے موجود ہی نہیں لیکن اس کے باوجود واٹر بور ڈکی جانب سے بیس لاکھ روپے کا بل بھیجا گیا۔ بجلی بھی غیرقانونی استعمال کی جارہی ہے ‘کالج کا ذاتی میٹر تک موجود نہیں ‘لیکن کا بھی بل آرہا ہے۔ ٹیلی فون کنکشن بل کی عدم ادائیگی پر کٹ چکے ہیں ۔ کالج میں لائبریری کے لیے روم اورالماریاں تو موجود ہیں مگر نہ تو روم میں بیٹھنے لائق فرنیچر ہے اور نہ ہی الماریوں میں کوئی کتاب رکھی گئی ہے۔
ساتھ ہی کالج میں لیب کے نام پر ایک روم موجود ہے تاہم وہاں پر کسی قسم کی سہولیات میسر نہیں۔ گراﺅنڈ میں جنگلی جھاڑیوں نے قبضہ جمالیا ہے۔ کالج کی دیوار کے ساتھ موجود فٹ پاتھ کو لوگوں نے کچرا کنڈی بنا رکھا ہے جہاں روزانہ کی بنیاد پر سینکڑوں ٹن کچرا پھینکاجانا معمول بن چکا ہے۔
آج سے تین سال قبل 14اگست کی رات کالج کا ایک بلاک نذر آتش کردیاگیا تھا جس کی ایف آئی آر بھی موجود ہے ‘تاہم اس کے ملزمان بھی تاحال قانون کی گرفت میں نہ آسکے ۔ کانفرنس ہال میں ایک نامعلوم افراد نے اپنی رہائش اختیار کررکھی ہے جہاں پر کسی کو جانے کی اجازت نہیں ۔ واش رومز کئی عرصے سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوکر استعمال کے قابل نہیں رہے۔ اس حوالے سے کالج انچارج کا کہنا تھا کہ ہم اپنی مدد آپ کے تحت کالج کے انتظامات کو چلا رہے ہیں۔ کالج میں مالی موجود ہے مگر کہاں ہے اس کا کسی کو علم نہیں‘ دو چوکیدار ہیں مگر ان کا بھی اتا پتہ نہیں۔ صفائی ستھرائی کےلیے جمعدار پہلے موجودتھا مگراس کا قتل ہوگیا جس کے باعث کالج میں صفائی ستھرائی کے لیے پرائیوٹ جمعدار کو ماہانہ تین ہزار روپے ادا کرنے کے بعد کچھ حالت بہتر نظرآتی ہے ‘تاہم وہ بھی اکثر غیر حاضر رہتا ہے ۔ انچارج نے مزید بتایا کہ ہم نے معتدد بار ایجوکیشن سیکرٹری سے درخواست کی ہے کہ کالج میں بنیادی ضروریات مہیا کی جائیں تاہم اس پر اب تک عمل نہیں ہوسکا ہے۔ ساتھ ہی ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ نائن ای ڈگری کالج میں یہاں سے دو پیون ‘دو کلرک اور تین پروفیسر کے جانے کے بعد اس کالج کے حالات مزید گھمبیر صورت اختیار کرچکے ہیں۔ سینئر کلرک نہ ہونے کے باعث ان کا کام بھی ہمیں ہی کرناپڑتا ہے ‘کالج انتظامیہ کا کوئی نام ونشان نہیں۔ جب کہ آرٹس سبجیکٹ کا کوئی ٹیچر کالج میں موجود نہیں ‘اسلامیات ‘مطالعہ پاکستان کا ٹیچر بھی اب تک کالج کو نہیں دیاگیا۔ انچارج نے بتایا کہ کالج زیر تعمیر ہی ہمیں دے دیاگیا تھا جس کی وجہ سے اس کا گورنمنٹ لسٹ میں نام شامل نہیں۔ تاہم ٹھیکیدار نے پی سی ون اورپی سی فور مانگا تھا جس پرہم نے صرف پی سی فور دیا ‘کیوں کہ کالج اب بھی زیر تعمیر ہے اورہم اپنی مدد آپ کے تحت کام کررہے ہیں ‘ان کا کہنا تھا کہ کالج کی دیوار بہت چھوٹی تھیں جسے ہم نے مزید دو فٹ اونچا کرایا ہے ۔ اس مد میں گورنمنٹ کی جانب کوئی مددفراہم نہیں کی گئی۔ انچارج کا کہنا تھا کہ اسٹیشنری ‘فوٹو کاپی ‘فارمز اوردیگر سامان بھی ہمیں اپنی جیب سے ہی خریدنا پڑ رہا ہے ۔ کالج میں ایک بھی کمپیوٹر نہیں جس کی وجہ سے ہمیں کافی پریشانی کا سامنا کرناپڑتا ہے۔
تین سال قبل کالج فنڈز ختم کردیاگیا جب کہ اے جی سندھ سے منظور شدہ فنڈ کاپچاس فیصد بھی کالج کو نہیں دیاگیا‘ساتھ ہی 2018-19میں اب تک کسی بھی کالج کو کسی قسم کا فنڈ نہیں دیاگیا۔ کالج میں 19میں سے 13اسسٹنٹ پروفیسر کی سیٹیں خالی ہیں ۔ اس کے باوجود یہاں سے پروفیسر اوراسٹاف کو شفٹ کیاگیا۔ کالج کی ستر فیصد دیوار آ ج بھی ٹوٹی ہوئی ہے جس کی کئی درخواستیں متعلقہ حکام کو بجھوائی گئی ہیں لیکن اس پر بھی اب تک کوئی توجہ نہیں دی گئی۔ کالج کو فوری طورپر لائبریرین ‘لائبریری ‘سینئروجونیئر کلرک‘پروفیسرزکی ضرورت ہے اوریہ وہ بنیادی چیزیں ہیں جن سے کالج کا نظام چلتا ہے اگر یہ ہی موجود نہیں ہوگا تو پھر تعلیم کا اللہ ہی حافظ ہے۔ ساتھ ہی پانی وبجلی کے کنکشن بھی مہیا کیے جانے چاہیں تاکہ اسٹاف اورطلبہ اپنی ضرورت کے لیے کالج سے باہر نہ جائیں۔
بلدیہ ٹاﺅن کی سماجی تنظےم فوکس کی جانب سے کئی مرتبہ کالج کے اطراف سے کچرا صاف کرایاگیا اور کالج کی دیواروں پر رنگ وروغن کرکے قومی پرچم بنائے گئے تاہم چند روز بعد ہی دوبارہ کچرا پھینکا جانا شروع ہوجاتا ہے ۔ اب دوبارہ فوکس کی جانب سے صفائی ستھرائی کا عمل شروع کیاگیا اور کالج کی دیواروں کو ایک مرتبہ پھر رنگ وروغن کرکے صاف ستھرا بنایاجارہاہے ۔ فوکس چیئرمین حبیب شا ہ نے اس سلسلے میں بات چیت کرتے ہوئے کہاکہ ہم اپنا فرض ادا کررہے ہیں مگر متعلقہ اداروں کو بھی چاہیے کہ وہ بھی اپنے فرائض کی انجام دہی میں غفلت کامظاہرہ نہ کریں ۔ ہم عوام سے بھی گزارش کرتے ہیں کہ یہ بلدیہ کا واحد کالج ہے جسے کالج ہی رہنے دیں کچرا کنڈی نہ بنائےں ۔ امید ہے اس مرتبہ ہماری کمپئن سے لوگوں میں شعور آجائے اور وہ ان حرکتوں سے باز رہیں۔
کراچی کے مسائل کاحل
تحریر ۔ایم اے میمن
کراچی کے کچرے پر آج کل سیاسی گرماگرمی عروج پر ہے۔ آرٹیکل 149کے تحت کراچی کو وفاق کے تحت کرنے کی منصوبہ بندی کی جارہی ہے۔ کراچی قیام پاکستان سے قبل اور بعد تک دارالحکومت رہا ہے۔ اسی طرح یہ شرف حیدرآبادکو بھی حاصل ہے۔ جب تک یہ دونوں شہر دارالحکومت رہے تب تک اس شہر کے مسائل نہ ہونے کے برابر تھے۔ ایک منظم سسٹم کے تحت تمام امور نمٹائے جارہے تھے۔
کراچی کے مسائل سیاسی مفادات کے تحت سیاستدانوں کے خود پیدا کردہ ہیں جس میں پانی کا مصنوعی بحران ،بجلی کی غیراعلانیہ لوڈ شیڈنگ،صفائی ستھرائی کے ناقص انتظامات ، پبلک ٹرانسپورٹ کا بے ڈھنگا پرائیوٹ نظام اور اب کراچی کا کچرا شامل ہیں۔ ہم بھارت کا مذاق اڑانے میں لگے رہے کہ وہ چاند پر پہنچ نہیں سکا،صرف د ومنٹ کی دوری پر ہی اس کا نظام فیل ہوگیا۔ لیکن دیکھا جائے تو درحقیقت ہمار ے سیاستدانوں کا دماغ فیل ہوچکا ہے ،بھارت نے اپنی محنت اور کوشش سے چاند کے اس حصے کو چھونے کی کوشش کی جہاں اب سے پہلے کوئی نہیں گیا۔ مگر ہم تو وہاں بھی نہ پہنچ سکے جہاں دنیا کئی برس پہلے ڈیرے جما چکی ہے۔ اب تو چاند سے آگے بھی دنیا کی تلاش شروع کردی گئی ہے۔ ہم آج بھی لکیر کے فقیر کی طرح دوسروں کا مذاق اڑانے میں ہی اپنی کامیابی سمجھ رہے ہیں۔معاف کیجیے ہم آج بھی کچرے پر سیاست کررہے ہیں اور شاید یہی ہمارا مقدر بن چکا ہے۔ کچرے کا مسئلہ حل ہوگا تو اس کے بعد سیوریج کی باری آئے گی ، اسی طرح ہم روزانہ ایک مسئلہ پیدا کریں گے اور ایک مسئلہ حل کریں گے۔ پاکستانیوں کی زندگی اسی میں گزر جائے گی ۔
ہم نے تعلیم پر کوئی توجہ دینی ہے اور نہ ہی ہم نے آئی ٹی شعبے کی طرف دیکھنا ہے جو انتہائی پستی کاشکار ہے۔ بھارت ہمارے ساتھ آزاد ہوا اوربنگلا دیش ہم سے کئی برس بعد وجود میں آیا۔ لیکن تعلیم اورآئی ٹی کے شعبے میں یہ دونوں ملک بلین ڈالرز باہر سے اپنے ملک بھیج رہے ہیں جب کہ ہم تعلیم بھی باہر جاکر حاصل کررہے ہیں اور آئی ٹی بھی وہ استعمال کررہے ہیں جو یہ دونوں ممالک استعمال کرکے پھینک دیتے ہیں۔ کراچی پاکستان کوکماکر دینے والا ایک ایسا بڑا بیٹا ہے جس کے حصے میں صرف قربانیاں ہی لکھی گئی ہیں۔ کراچی کے نصیب میں خوشحالی نہیں ،اب کراچی صرف اپنے زخموں کو دیکھ دیکھ کر تکلیف سے کراہ رہا ہے اور اس کی موجودہ حالت کے ذمے دار ہمارے وہ نیم حکیم سیاسی ڈاکٹر ہیں جنہیں اگر کان کا درد بتایاجائے تو وہ دانت نکال دیتے ہیں۔ کراچی کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی کیاگیا ۔تکلیف ان سیاسی ڈاکٹروں سے تھی اورزخم دل میں کردیے۔
اب بھی حالات کو قابو کیاجاسکتا ہے اور آرٹیکل 149کے نفاذ کے بغیر ہی مسائل حل ہوسکتے ہیں اگر سیاسی نیم حکیم ڈاکٹرسنجیدگی اختیار کرےں۔ آج دنیا میں ہر جگہ انفارمیشن ٹیکنالوجی کا دور ہے اور وہ لوگ اس کا ہر شعبے میں بھرپور استعمال بھی کررہے ہیںجس سے ایک طرف ان کی معیشت دن رات ترقی کررہی ہے وہیں ان کے عوامی مسائل میں بھی 80فیصد کمی آئی ہے۔ چین نے ایک حالیہ منصوبہ پیش کیاہے جس میں اس نے آئی ڈی کارڈ،ڈیبیٹ کارڈ اور نقد رقم سے لوگوں کو چھٹکارا دلایاہے۔ اس کا متبادلہ صرف اس کا چہرہ ہوگا جس سے اس کی تمام تر بنیادی ضروریات پوری ہوجائیں گی۔
کراچی کے مسائل کا واحد حل یہ ہے کہ ملازمین تبدیل کیے جائیں، مثال کے طورپر بلدیہ ٹاﺅن کے تمام ملازمین کو لانڈھی ٹاﺅن بھیج دیاجائے اور لانڈھی والوں کو بلدیہ، اسی طرح دیگر ٹاﺅنز کے تمام افسران وملازمین کو بھی آگے پیچھے کردیاجائے ۔ چیک اینڈ بیلنس کا سسٹم یہ رکھا جائے جس طرح یونائٹیڈ نیشن کے زیلی ہیلتھ ادارے ڈبلیو ایچ ایو اپنے ملازمین کی آفس ٹائمنگ میں ہر وقت لوکیشن چیک کرتا ہے،اسی طرح ورکنگ گروپ بنا کر ہر ملازمین اورہر افسران کی لوکیشن ،وقت اورکام کی نوعیت چیک کی جائے ۔ اسی طرح جی پی آر ایس سسٹم بھی مہنگا نہیں،حکومت جہاں عیاشی کے لیے کروڑوں روپے خرچ کردیتی ہے وہیں چند ہزار روپے اس سسٹم پر لگا کر ، تمام ملازمین کو جی پی آرایس سسٹم سے لیس کردینے سے جہا ں ان ملازمین کی نقل وحرکت چیک کی جاسکتی ہے وہیں موقع پرانہیں پکڑا بھی جاسکتا ہے ۔ اس سسٹم سے کئی فوائد حاصل ہوں گےے اس سے نہ صرف وقت کی پابندی بھی ہوگی بلکہ حاضری سسٹم بھی اسی طرح جی پی آر ایس سسٹم کے تحت کردینے سے کوئی بھی لیٹ نہیں ہوگا۔ اور جو لیٹ ہوگا اس کی آئی ڈی آٹو میٹک بلاک ہوجائے گی جس سے وہ شخض غیر حاضر تصور ہوگااور اس کی تنخواہ میں کٹوتی بھی کردی جائے۔ اس سے یقینا کوئی بھی افسراور ملازم نہ تو لیٹ ہوگا اور نہ ہی کوئی ڈرامے بازی کام آسکے گی،اور کام بھی روزانہ کی بنیاد پر ہوگا۔ اس کے ساتھ ساتھ اس ایپ کو گوگل پلے اسٹور پر اپ لوڈ کردیاجائے تاکہ ہر شہری اسے ڈاﺅن لوڈ کرکے اپنے علاقے کے سرکاری ملازمین کی کارکردگی کو خود دیکھ سکے اور عوام کویہ بھی معلوم ہوسکے کہ آج ان کی گلی میں صفائی کرنے والا کون ہے۔ کیا نام ہے اور اس وقت وہ کہاں پر ہے۔ساتھ ہی اس ایپ میں کمپلین آپشن رکھ دیاجائے ،جیسے ہی کوئی کپملین آئے آپ کے سامنے تمام لوگوں کا ڈیٹا موجود ہوگا اور آپ اسی وقت اس کی لوکیشن اور کارکردگی کاجائزہ لے کر فوری فیصلہ کرسکتے ہیں۔ ا س ایپ سے وزیراعلیٰ سمیت تمام اعلیٰ افسران کو لنک کردیاجائے ، تاکہ وہ بھی لمحہ بہ لمحہ اپنے افسران کی کارکردگی کا جائزہ لے سکیں۔ اس سے اگر کوئی سیکورٹی ایشو ہوگا تو اس کا حل بھی انتہائی آسان ہے کہ ان کے ساتھ ساتھ پولیس کی نقل وحرکت کو بھی مانیٹر کیاجائے کہ وہ اس وقت کہاں کہاں موجود ہے اور کیا کیا کررہی ہے تاہم پولیس نیٹ ورک سسٹم کو عوام تک رسائی نہ دی جائے اس سے یقینا پھر معاملات خراب ہونے کا اندیشہ ہے۔
یہ کوئی جدید ترین ٹیکنا لوجی نہیں جس کا ہم نے ذکر کیا ہے آج دنیا بھرمیں اس سے کہیں گنا زیادہ جدید سسٹم کے ذریعے ادارے اپنے ملازمین کی چوبیس گھنٹے نقل وحرکت کو نوٹ کررہے ہیں ، چپ کے ذریعے ان کی صحت کا بھی جائزہ لیاجارہاہے ،اگر کوئی ملازم یہ کہتا ہے کہ اس کی طبیعت ٹھیک نہیں اور وہ آفس سے غیر حاضر رہے گا تو یقین کریں وہ فوری طورپر چیک کرسکتے ہیں کہ آیا وہ بیمار ہے یا نہیں۔ لیکن ہم اتنی جدیدٹیکنالوجی کے استعمال کا نہیں کہہ رہے بلکہ اس ٹیکنالوجی کے استعمال کی بات کررہے ہیں جو ملٹی نیشنل ادارے پاکستان میں اپنے ملازمین کے لیے استعمال کررہے ہیں۔ حکومت اگر واقعی سنجیدہ ہے کراچی کے مسائل کے حل میں تو جب تک وہ ٹیکنالوجی کا سہارا نہیں لے گی حالات بہتر نہیں ہوں گے ۔ اس ٹیکنالوجی سے یقینا جہاں ملازمین کی حرام خوری بند ہوگی وہیں افسران بالا کی ہڈحرامی اور رشوت ستانی بھی ختم ہوجائے گی۔
Subscribe to:
Comments (Atom)
































