mytime
Friday, 4 October 2019
Thursday, 19 September 2019
محفل بزم سکھن
دھوپ سات رنگوں میں پھیلتی ہے آنکھوں پر
برف جب پگھلتی ہے اس کی نرم پلکوں پر
پھر بہار کے ساتھی آ گئے ٹھکانوں پر
سرخ سرخ گھر نکلے سبز سبز شاخوں پر
جسم و جاں سے اترے گی گرد پچھلے موسم کی
دھو رہی ہیں سب چڑیاں اپنے پنکھ چشموں پر
ساری رات سوتے میں مسکرا رہا تھا وہ
جیسے کوئی سپنا سا کانپتا تھا ہونٹوں پر
تتلیاں پکڑنے میں دور تک نکل جانا
کتنا اچھا لگتا ہے پھول جیسے بچوں پر
لہر لہر کرنوں کو چھیڑ کر گزرتی ہے
چاندنی اترتی ہے جب شریر جھرنوں پر
شاعر پروین شاکر۔ پسندنائلہ قریشی ۔ لانڈھی
کو بہ کو پھیل گئی بات شناسائی کی
اس نے خوشبو کی طرح میری پذیرائی کی
کیسے کہہ دوں کہ مجھے چھوڑ دیا ہے اس نے
بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی
وہ کہیں بھی گیا لوٹا تو مرے پاس آیا
بس یہی بات ہے اچھی مرے ہرجائی کی
تیرا پہلو ترے دل کی طرح آباد رہے
تجھ پہ گزرے نہ قیامت شب تنہائی کی
اس نے جلتی ہوئی پیشانی پہ جب ہاتھ رکھا
روح تک آ گئی تاثیر مسیحائی کی
اب بھی برسات کی راتوں میں بدن ٹوٹتا ہے
جاگ اٹھتی ہیں عجب خواہشیں انگڑائی کی
شاعرہ‘ پروین شاکر۔پسند ‘سویرا۔ کراچی
مزاج ہم سے زیادہ جدا نہ تھا اس کا
جب اپنے طور یہی تھے تو کیا گلہ اس کا
وہ اپنے زعم میں تھا بے خبر رہا مجھ سے
اسے گماں بھی نہیں میں نہیں رہا اس کا
وہ برق رو تھا مگر وہ گیا کہاں جانے
اب انتظار کریں گے شکستہ پا اس کا
چلو یہ سیل بلا خیز ہی بنے اپنا
سفینہ اس کا خدا اس کا ناخدا اس کا
یہ اہل درد بھی کس کی دہائی دیتے ہیں
وہ چپ بھی ہو تو زمانہ ہے ہم نوا اس کا
ہمیں نے ترک تعلق میں پہل کی کہ فرازز
وہ چاہتا تھا مگر حوصلہ نہ تھا اس کا
شاعرفرازاحمد۔ پسند عامر علی۔ کراچی
زمانہ آیا ہے بے حجابی کا عام دیدار یار ہوگا
سکوت تھا پردہ دار جس کا وہ راز اب آشکار ہوگا
گزر گیا اب وہ دور ساقی کہ چھپ کے پیتے تھے پینے والے
بنے گا سارا جہان مے خانہ ہر کوئی بادہ خوار ہوگا
کبھی جو آوار ہ جنوں تھے وہ بستیوں میں آ بسیں گے
برہنہ پائی وہی رہے گی مگر نیا خار زار ہوگا
سنا دیا گوش منتظر کو حجاز کی خامشی نے آخر
جو عہد صحرائیوں سے باندھا گیا تھا پر استوار ہوگا
نکل کے صحرا سے جس نے روما کی سلطنت کو الٹ دیا تھا
سنا ہے یہ قدسیوں سے میں نے وہ شیر پھر ہوشیار ہوگا
کیا مرا تذکرہ جو ساقی نے بادہ خواروں کی انجمن میں
تو پیر مے خانہ سن کے کہنے لگا کہ منہ پھٹ ہے خار ہوگا
دیار مغرب کے رہنے والو خدا کی بستی دکاں نہیں ہے
کھرا ہے جسے تم سمجھ رہے ہو وہ اب زر کم عیار ہوگا
تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خودکشی کرے گی
جو شاخ نازک پہ آشیانہ بنے گا ناپائیدار ہوگا
سفین برگ گل بنا لے گا قافلہ مور ناتواں کا
ہزار موجوں کی ہو کشاکش مگر یہ دریا سے پار ہوگا
چمن میں لالہ دکھاتا پھرتا ہے داغ اپنا کلی کلی کو
یہ جانتا ہے کہ اس دکھاوے سے دل جلوں میں شمار ہوگا
جو ایک تھا اے نگاہ تو نے ہزار کر کے ہمیں دکھایا
یہی اگر کیفیت ہے تیری تو پھر کسے اعتبار ہوگا
کہا جو قمری سے میں نے اک دن یہاں کے آزاد پاگل ہیں
تو غنچے کہنے لگے ہمارے چمن کا یہ رازدار ہوگا
خدا کے عاشق تو ہیں ہزاروں بنوں میں پھرتے ہیں مارے مارے
میں اس کا بندہ بنوں گا جس کو خدا کے بندوں سے پیار ہوگا
یہ رسم برہم فنا ہے اے دل گناہ ہے جنبش نظر بھی
رہے گی کیا آبرو ہماری جو تو یہاں بے قرار ہوگا
میں ظلمت شب میں لے کے نکلوں گا اپنے درماندہ کارواں کو
شہہ نشاں ہوگی آہ میری نفس مرا شعلہ بار ہوگا
نہیں ہے غیر از نمود کچھ بھی جو مدعا تیری زندگی کا
تو اک نفس میں جہاں سے مٹنا تجھے مثال شرار ہوگا
نہ پوچھ اقبال کا ٹھکانہ ابھی وہی کیفیت ہے اس کی
کہیں سر راہ گزار بیٹھا ستم کش انتظار ہوگا
شاعر مشرق۔ پسند وسیم احمد۔ کراچی
گفتگو اچھی لگی ذوق نظر اچھا لگا
مدتوں کے بعد کوئی ہم سفر اچھا لگا
دل کا دکھ جانا تو دل کا مسئلہ ہے پر ہمیں
اس کا ہنس دینا ہمارے حال پر اچھا لگا
ہر طرح کی بے سر و سامانیوں کے باوجود
آج وہ آیا تو مجھ کو اپنا گھر اچھا لگا
باغباں گلچیں کو چاہے جو کہے ہم کو تو پھول
شاخ سے بڑھ کر کف دل دار پر اچھا لگا
کوئی مقتل میں نہ پہنچا کون ظالم تھا جسے
تیغ قاتل سے زیادہ اپنا سر اچھا لگا
ہم بھی قائل ہیں وفا میں استواری کے مگر
کوئی پوچھے کون کس کو عمر بھر اچھا لگا
اپنی اپنی چاہتیں ہیں لوگ اب جو بھی کہیں
اک پری پیکر کو اک آشفتہ سر اچھا لگا
میر کے مانند اکثر زیست کرتا تھا فراز
تھا تو وہ دیوانہ سا شاعر مگر اچھا لگا
شاعر فرازاحمد۔ پسند ماجد علی۔ حیدرآباد
آج کی اچھی بات
وقت ‘دولت اوررشتے ایسی چیزیں ہیں جوہمیں مفت میں مل جاتی ہیں ‘مگر ان کی قیمت کا اندازہ ہمیں اس وقت ہوتا ہے جب ہم اپنی نادانی اورانا کے باعث اسے کھو دیتے ہیں۔
فرحانہ قیوم ۔ حیدرآباد
احمق شخص
وہ شخص احمق ہے جو دشمنوں کو دوست بنانے کے لالچ میں دوستوں کو دشمن بنالے۔
غلام حسین ۔ ٹنڈوالہ یار
دوستی
اچھا دوست جتنی بار روٹھ جائے اسے ہر بار منالینا چاہیے کیوں کہ تسبیح کے دانے چاہیے جتنی بار بکھریں چن لیے جاتے ہیں ۔
دلاور شیخ ۔ بلدیہ ٹاﺅن
کشمیر والوں
ہم بھولا نہ سکیں گے یہ ظلم اے کشمیر والو
ہم سلام کہتے ہیں تیری جرآت کو اے کشمیر والو
آزادی ایک نعمت ہے مگر اب یہ گویا
ہونے کو ہے تم آزاداحوصلہ رکھ اے کشمیر والو
ہم بے بس ہیں تیری یہ درد کی داستان پر
مگر ہم ساتھ ہیں تیرے اے کشمیر والو
حوصلہ رکھ،جرآت ،شجاعت اور ا ±مید رکھ
وقت آزادی قریب ہے اے کشمیر والو
ہمارے رب سے یہی التجا ہے صدا
ہوجائے جلد آزاد دعا ہے اے کشمیر والو
اکرم ۔ مظفرآباد
قابل غور
یہ کیسا درد ہے‘ یہاں کوئی اپنے دکھ سے اتنا دکھی نہیں ۔ جتنا دوسرے کے سکھ سے دکھی ہے۔
شیر دل ۔ سلطان آباد
غلطی کااعتراف
اپنی غلطی کا اعتراف کرلینا ایک بہترین خصوصیت ہے ‘ اس سے نفس میں عاجزی پروان چڑھتی ہے اورتکبر بھی کمزورہوتا ہے
قادر۔ بلدیہ ٹاﺅن
اچھی بات
اپنی سوچ کو پانی کے قطروں سے بھی زیادہ شفا ف رکھو
کیوں کہ جس طرح قطرے قطرے دریا بنتا ہے اسی طرح
سوچوں سے ایمان بنتا ہے ۔
نازیہ رحمن ۔ راولپنڈی
بے وفائی کی سب کتابوں میں
تیرے جیسی کوئی مثال نہیں
عنایت خان ۔ کوئٹہ
تو اپنی شیشہ گری کا ہنر نہ کر ضائع
میں آئینہ ہوں ‘مجھے ٹوٹنے کی عادت ہے
شاہین ۔ حیدرآباد
پتو کی طرح مجھ کو بکھیرتا تھا زمانہ
اک شخص نے یکجا کیااور ‘ آگ لگادی
کریم داد۔حب
محفل بزم سکھن
بزم سکھن کی محفل میں اگر آپ بھی حصہ لینا چاہتے ہیں تو ہمیں لکھ بھیجیں ‘ ہم اسے مائی ٹائم بزم سکھن کی محفل میں جگہ دیں گے۔
ہمارا ای میل ایڈریس ہے
mytimemag147@gmail.com
آپ ہمیں فیس بک پر بھی لائک کرسکتے ہیں
facebook.com/My-Time-Magazine
ہماری ویب سائٹ کا وزٹ کیجیے ۔
www.mytime.com.pk
ُPh#-0312-5491079
سری لنکا کا دورہ پاکستان پر سوالیہ نشان
سری لنکا کا دورہ پاکستان پر سوالیہ نشان
سری لنکن حکومت نے خاموشی اختیارکر لی
دورئہ پاکستان کی اجازت کے حوالے سے سری لنکن حکومت نے مکمل خاموشی اختیار کرلی ہے۔ جب کہ ٹیم اپنی مکمل تیاری کے ساتھ انتظار کی سولی پر لٹکی ہوئی نظرآرہی ہے حکومت کی جانب سے ٹیم کو تاحال کلیئرنس کا انتظار ہے۔سری لنکن ٹیم کو ون ڈے اور ٹوئنٹی 20 سیریز کیلیے 24 ستمبر کو پاکستان کیلیے اڑان بھرنی ہے، مگراب تک انھیں اپنی حکومت کی جانب سے کلیئرنس نہیں مل سکی۔گزشتہ ہفتے وزیراعظم ہاو ¿س کی جانب سے اس وقت کرکٹ بورڈ کو پاکستان میں سیکورٹی صورتحال کے دوبارہ جائزے کی ہدایت دی گئی جب اس نے اسکواڈز کا اعلان کیا تھا،ایس ایل سی نے وزارت دفاع سے دہشت گرد حملے کے خطرے پرپاکستان میں دوبارہ سیکورٹی جائزے کیلیے رہنمائی اور کلیئرنس کی درخواست کردی تھی، مگر ابھی تک حکومت سے کوئی بھی جواب موصول نہیں ہوا۔ایک سینئر آفیشل کا کہنا ہے کہ اس ٹور کے بارے میں کوئی بھی فیصلہ کرنے سے قبل ہم نے وزارت دفاع سے اس بارے میں رہنمائی مانگی، سیکریٹری دفاع کو باقاعدہ خط لکھا گیا ہے جس کے جواب کا انتظار ہے۔انھوں نے مزید کہا کہ ہم انٹرنیشنل کرکٹ کی واپسی کیلیے پاکستان کرکٹ بورڈ کی مدد کرنا چاہتے ہیں کیونکہ انھوں نے بھی ہمیشہ ہمارا ساتھ دیاہے، بورڈ صدر شمی سلوا کی بھی اگلے چند روز میں لاہور روانگی متوقع ہے جہاں وہ اس دورے سے متعلق پی سی بی آفیشلز سے مزید گفت و شنید کرینگے، البتہ ان سب چیزوں کا دارومدار وزارت دفاع کے جواب پر ہے۔شمی سلوا نے کہاکہ پاکستان نے جو سیکورٹی انتظامات کیے ہم ان سے مطمئن ہیں اور ہمیں نئے خطرے کے بارے میں کچھ معلوم نہیں، اسی لیے حکومت سے رہنمائی مانگی، جیسے ہی ہمیں حکومت کی سے کلیئرنس ملے گی ٹور کے بارے میں حتمی فیصلہ کریں گے۔
دوسری جانب دورے سے انکار کرنے والے کھلاڑیوں کے حوالے سے رائے عامہ تبدیل ہورہی ہے۔کچھ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ان نام نہاد اسٹارز نے موقع دیکھتے ہوئے بورڈ کے خلاف بغاوت کی۔اپنی آنکھوں سے کولمبو میں دہشت گردی کی ہولناکی دیکھنے والے ڈاسن شناکا پاکستان جانے کو تیار ہیں۔یاد رہے کہ اپریل میں ایسٹر کے موقع پر شناکا کو بھی چرچ جانا تھا مگر رات کو دیر سے دوسرے شہر سے آنے کی وجہ سے وہ نہیں گئے مگر حملے کی خبر ملتے ہی وہ چرچ بھاگے تھے جہاں پر ان کی والدہ اور دادی موجود تھیں ، انھوں نے اپنی آنکھوں سے تباہی دیکھی تھی، ان کی والدہ محفوظ رہیں جبکہ دادی کو سر پر چوٹیں آئی تھیں، شناکا کو دورہ پاکستان کیلیے ٹوئنٹی 20 ٹیم کا کپتان بنایا گیا ہے۔
اس حوالے سے قومی ٹیم کے کپتان سرفراز احمد کا کہنا ہے کہ پاکستان میں سیکورٹی کا کوئی ایشو نہیں اور سری لنکا ٹیم کو کہوں گا وہ یہاں آکر کھیلے۔کراچی میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے قومی ٹیم کے کپتان سرفراز احمد کا کہنا تھا کہ پاکستان کرکٹ بورڈ نے انٹرنیشل کرکٹ کی واپسی کیلیے بہت کوششیں کی ہیں، آئی سی سی اور دیگر ممالک کے بورڈز کو پاکستان کو سپورٹ کرنا چاہیے، ہم نے دوسرے ممالک کو سپورٹ کیا دوسرے ممالک بھی پاکستان میں انٹرنیشنل کرکٹ کی واپسی کے لیے کردار ادا کریں۔قومی ٹیم کے کپتان نے کہا کہ نہیں معلوم سری لنکا ٹیم کے پاکستان نہ آنے کے پیچھے کس کا ہاتھ ہے مگر سری لنکا میں دہشت گردی کا بڑا واقعہ ہوا اس کے باوجود ہماری انڈر 19 ٹیم وہاں گئی اور اچھے کی امید ہی رکھنی چاہے‘ امید ہے سری لنکا ٹیم کے ساتھ شیڈول کے مطابق ہو۔ چیئرمین پی سی بی احسان مانی اس حوالے سے کہتے ہیں سیریز پاکستان میں ہوگی اور ہم اس سیریز کے لیے پرامید ہیں۔ پاکستان میں حالات کافی بہترہیں ۔
سابق اسٹار رمیز راجہ نے کہاکہ سیکورٹی خطرات تو سری لنکا یہاں تک نیوزی لینڈ میں بھی کم نہیں،حیرت اس بات پر ہے کہ قبل ازیں ورلڈ الیون اور قومی ٹیم کے ساتھ پاکستان کا دورہ کرتے ہوئے فول پروف سیکورٹی انتظامات کو خود اپنی آنکھوں سے دیکھنے والے تھشارا پریرا نے بھی انکار کردیا، میں انفرادی طور پر ان کھلاڑیوں کا مسئلہ تو سمجھ سکتا ہوں جو 2009میں دہشت گردی کا شکار ہونے والے اسکواڈ کا حصہ تھے شاید وہ اس تجربے سے خوفزدہ ہوں۔انھوں نے کہا کہ موجودہ صورتحال سے اندازہ ہوتا ہے کہ دورئہ پاکستان کے حوالے سے تحفظات دور کرنے میں ایس ایل سی اور کھلاڑیوں میں رابطے کا فقدان رہا، بورڈ نے سیکورٹی انتظامات کا جائزہ لینے کے بعد ٹور کا اعلان کردیا لیکن اسے اندازہ نہیں تھا کہ کھلاڑی اسے مشکل میں ڈال دیں گے،ان کو کرکٹرز کا مسئلہ پہلے دیکھنے کے بعد دورے کا فیصلہ کرنا چاہیے تھا۔رمیز راجہ نے کہا کہ پاکستان نے ہمیشہ مشکل وقت میں سری لنکا کا ساتھ دیا، ورلڈکپ 1996اور کولمبو میں بم دھماکوں کے بعد بھی پی سی بی نے اپنی انڈر19ٹیم بھجوائی، ایشیائی ملکوں کی کرکٹ برادری کو ایک دوسرے کا ساتھ دینے کا رویہ اپنانا ہوگا۔جاوید میانداد نے کہا کہ سری لنکن بورڈ قومی ذمہ داریوں پر لیگز کو ترجیح دینے والے پلیئرز کا نوٹس لے، کسی بھی کھلاڑی کیلیے ملک کی نمائندگی پہلی ترجیح ہونا چاہیے، بہرحال جو بھی کرکٹرز آرہے ہیں اس سے قطع نظر پاکستان کو بہترین کرکٹ کھیلنا چاہیے۔شعیب اخترنے کہاکہ پی سی بی نے کولمبو دھماکوں کے بعد انڈر19ٹیم بھجوانے سمیت ہمیشہ سری لنکن کرکٹ کو سپورٹ کیا، دورے سے انکار کرنے والے کرکٹرز نے مایوس کیا ہے۔
دنیا کی امیر ترین خواتین
فوربزکی فہرست میں مختلف ملکوں اورمعروف بین الاقوامی کاروباری اداروں سے تعلق رکھنے والی خواتین شامل ہیں
امریکی میگزین فوربز کی امیر ترین خواتین کی فہرست جاری،مختلف ملکوں اور معروف بین الاقوامی کاروباری اداروں سے تعلق رکھنے والی خواتین شامل ہیں
مائی ٹائم رپورٹ
معروف امریکی جریدے فوربز نے دنیا بھر میں امیر ترین خواتین کی ایک فہرست شائع کی ہے جس میں مختلف ملکوں اور معروف بین الاقوامی کاروباری اداروں سے تعلق رکھنے والی خواتین کو شامل کیا گیا ہے۔میگزین کی فہرست کے مطابق پہلے نمبر پر فرانسیسی کاسمیٹکس کمپنی لوریل کی چیئرمین فرانسواز بیٹن کورٹ مائیرز ہیں جن کے اثاثوں کی مالیت 49.3 ارب ڈالر اور وہ دنیا کی 15ویں امیر ترین انسان ہیں، وہ اپنے خاندان سمیت اس کمپنی کی ایک تہائی مالکن ہیں۔65 سالہ فرانسواز بیٹن کورٹ مائیرز کو ان کی جائداد اپنی والدہ لیلیٰ این بیٹن کورٹ سے وصول ہوئی جو ستمبر 2017ءمیں 94 سال کی عمر میں وفات پا گئیں۔
فہرست میں دوسرا نام معروف امریکی کمپنی وال مارٹ کے بانی سیم والٹن کی بیٹی ایلس والٹن کا ہے جو 44.4 ارب ڈالر کے اثاثوں کے ساتھ دنیا کی 17ویں امیر ترین انسان ہیں۔69 سالہ ایلس والٹن معروف امریکی کمپنی وال مارٹ کے بانی سیم والٹن کی اکلوتی بیٹی ہیں، تاہم اپنے دو بھائیوں کے برعکس انھوں نے اپنی خاندانی کمپنی سے دور رہ کر اپنی توجہ فن کی طرف کر دی ہے۔ ایلس اپنے آبائی شہر بینٹن ویل میں کرسٹل برجز میوزیم آف امیریکن آرٹ کی سربراہ بھی ہیں۔
تیسرے نمبر پر امریکی ملٹی نیشنل ٹیکنالوجی کمپنی ایمزون کے بانی جیف بینروس کی سابقہ اہلیہ 48 سالہ مکینزی بیزوس ہیں جن کے اثاثوں کی مالیت 35.6 ارب امریکی ڈالر ہے جو صرف ان کا ایمزون کا حصہ ہے اور ک ±ل مالیت شاید اس سے بھی زیادہ ہو، ان کو یہ رقم اپنے شوہر سے علیحدگی شرائط کے تحت ملی۔مکینزی بیزوس کی زیر ملکیت آن لائن ریٹیل ویب سائٹ ایمازون کا چار فیصد حصہ ہوگا، یہ حصہ 35.6 ارب امریکی ڈالر کے لگ بھگ ہے جس سے وہ دنیا کی تیسری امیر ترین خاتون اور 24 ویں امیر ترین انسان بن گئی ہیں۔
عالمی سطح پر امیر ترین خواتین میں چوتھا نام امریکی چاکلیٹ کمپنی مارز کی ایک تہائی کی مالکن 79 سالہ جیکلین مارز کا ہے جن کے اثاثوں کی مالیت 23.9 ارب امریکی ڈالر ہے،ان اثاثوں کے ساتھ یہ دنیا کی 33 ویں امیر ترین انسان ہیں۔ یہ کمپنی ان کے دادا فرینک نے 1911ءمیں بنائی تھی۔انھوں نے تقریباً 20 سال اپنی خاندانی کمپنی کے ساتھ کام کیا ہے اور 2016ءتک وہ اس کمپنی کے بورڈ کی رکن بھی تھیں۔
پانچویں امیر ترین خاتون چینی ریئل اسٹیٹ کمپنی کنٹری گارڈن ہولڈنگز کے اکثریتی حصص کی مالکن 27 سالہ یان ھوان ہیں جن کے اثاثوں کی مالیت 22.1 ارب ڈالر ہے، وہ چین کی سب سے امیر ترین خاتون اور دنیا کی 42 ویں امیر ترین انسان ہیں۔کنٹری گارڈن کی ویب سائٹ کے مطابق یہ 2016ءمیں دنیا کی تیسری بڑی پراپرٹی کمپنی تھی، ان کو اس کمپنی کا 57 فیصد حصہ اپنے والد سے 2016ءمیں ورثے میں ملا۔
فہرست میں مجموعی طور پر چھٹی اور دوسری یورپین خاتون سوزین کلیٹن کے اثاثوں کی مالیت 21 ارب امریکی ڈالر ہے جس سے یہ دنیا کی 46 ویں امیر ترین انسان ہیں۔جرمنی سے تعلق رکھنے والی 56 سالہ سوزین کی دولت کے اس حجم کے پیچھے دواسازی اور گاڑیوں کی کمپنیاں ہیں۔ سوزین کو اپنے والدین کی وفات کے بعد کیمیائی اشیاءبنانے والی کمپنی ایٹلینٹا اے جی کا نصف حصہ وراثت میں ملا جبکہ سوزین اور ان کے بھائی کا کل ملا کر بی ایم ڈبلیو میں تقریباً 50 فیصد حصہ بھی ہے۔انھوں نے ایٹلینٹا کو نجی محدود شراکت دار کمپنی بنا کر مکمل طور پر خرید لیا ہے،ساتھ ہی انھوں نے کئی اور کمپنیوں میں بھی شئیرز خریدے ہیں۔
ساتویں امیر ترین خاتون ایپل کے بانی اسٹیو جوبز کی بیوہ 55 سالہ لورین پاول جوبز ہیں جن کے اثاثوں کی مالیت 18.6 ارب ڈالرہے۔ لورین نے کچھ پیسے صحافت میں لگا کر دی ایٹلانٹک رسالے کا اکثریتی حصہ خریدا ہے اور مدر جونز اور پرو پبلکا جیسے غیر منافع بخش اداروں میں بھی حصص خریدے ۔
حکومت کی معاشی پالیسیوں نے کاروبار تباہ کردیا ہے ‘انور نیازی
حکومت کی معاشی پالیسیوں نے کاروبار تباہ کردیا ہے ‘انور نیازی
اب کراچی میں کچرے پر سیاست شروع کردی گئی ہے ‘مسائل حل نہیں ہورہے
عوام کو کے ایم سی ‘ڈی ایم سی اور چائنا کمپنی کے چکر میں الجھا کر رکھ دیاگیا ہے
تاجرو ں کے مسائل پر چیئرمین انجمن تاجران سعید آباد کی مائی ٹائم سے خصوصی گفتگو
انجمن تاجران سعید آباد کا قیام آج سے 25سال قبل جس مقصد کے لیے عمل میں لایا گیا آج بھی اسی مقصد کے تحت کام کررہی ہے۔ انجمن تاجران سعید آباد جہاں تاجروں کے مسائل کے حل میں بھرپور کردار اداکررہی ہے وہیں تاجروں کی فلاح وبہبود کے لیے بھی عملی جدوجہد میں مصروف عمل ہے۔ انجمن تاجران کی محنت اورمسائل کے حل میں دلچسپی کو مد نظر رکھتے ہوئے نمائندہ مائی ٹائم نے چیئرمین انجمن تاجران سعید آبادانور نیازی سے ملاقات کی اورتاجروں کو درپیش مسائل اور موجودہ حکومت کی معاشی پالیسیوں کے سلسلے میں مکمل بات چیت کی ‘جوانٹرویو کی صورت میں قارئین کی نذر ہے۔
مائی ٹائم۔ انجمن تاجران سعید آباد کن مقاصد پر کام کررہی ہے؟
انور نیازی۔ انجمن تاجران سعیدآباد کامقصد سیاسی نہیں۔اس کا مقصد صرف تاجروں کو ایک پلیٹ فارم مہیا کرنا ہے اور ان کے مسائل کو سنجیدگی کے ساتھ حل کرنا ہے۔اس کے ساتھ ساتھ مارکیٹ کمیٹی کا مقصد تاجروں کی فلاح وبہبود پر بھی توجہ دینا ہے ۔ اس سلسلے میں تاجر برادری اپنے ان تاجروں کا بھرپور خیا ل رکھتی ہے جو معاشی طورپر کمزور ہوتے ہیں۔
مائی ٹائم۔ اب تک کن مسائل کو حل کیاگیا؟
انور نیازی۔ بھتے کی پرچیوں کا ملنا پورے کراچی کا مسئلہ تھا‘تاہم ہم نے سعید آباد میں اس پر بھرپور ورک کیا اور متعلقہ اداروں تک رسائی حاصل کرکے اپنے تاجروں کوان بھتہ پرچیوں سے نجات دلائی۔ بلدیہ ٹاﺅن میں غیر اعلانیہ لوڈشیڈنگ کے باعث کاروبار پر بہت برا اثر پڑ رہاتھا اس سلسلے میں بھی انجمن تاجران سعید آباد نے یک آواز ہوکر اس پر کام کیا اورآج الحمداللہ لوڈشیڈنگ سے علاقے کو نجات دلانے میں کامیاب رہے ہیں۔ اسی طرح صفائی ستھرائی نہ ہونے کی وجہ سے جہاں دکاندار حضرات پریشان تھے وہیں کوئی گاہک بھی آنے کو تیار نہیں ہوتا تھا اس پر بھی ہم نے آواز اٹھائی اوراس مسئلے کو بھی حل کرایا۔ اکثر دکانداروںکے باہمی جھگڑوں اورکبھی گاہک اوردکانداروں کے جھگڑے بھی آجاتے ہیں جنہیں احسن طرےقے سے نمٹایاجاتا ہے ۔ مارکیٹ کمیٹی صرف دکانداروں کا نہیں بلکہ گاہک کے حقوق کا بھی بھرپور خیا ل رکھتی ہے۔
مائی ٹائم۔ چوبیس مارکیٹ کے مسائل کس حد تک کم ہوئے؟
انور نیازی۔ ہم اپنی بھرپورکوششیں کرتے رہتے ہیں ‘تاہم یہاں سیاسی مفادات کا گیم زیادہ ہے۔ اب تو کچرے پر بھی سیاست شروع ہوچکی ہے۔ پہلے حالات بہتر تھے ‘لیکن جب سے چائنا کمپنی ‘کے ایم سی ‘ ڈی ایم سی اورسندھ حکومت بیچ میں آئی ہے تب سے حالات گھمبیر صور ت اختیار کرگئے ہیں۔ نظام کو اتناپیچیدہ بنادیاگیا ہے کہ کچھ سمجھ ہی نہیں آتا کہ آیا کچرا کون اٹھائے گا اور ہمیں اپنی شکایت کس کے پاس لے کر جانی چاہیے ۔ جس کے پاس جاتے ہیں وہ کسی اور کا بتا کرخود کو بری الذمہ کردیتا ہے۔ جہاں تک میں سمجھتا ہوں حکومت نے صفائی ستھرائی کے نظام کو کچرا کردیا ہے۔
مائی ٹائم۔تاجروں کے بنیادی مسائل کیا ہیں؟
انور نیازی۔ ویسے تو ہر تاجر کے اپنے اپنے مسائل الگ قسم کے ہیں۔ تاہم حکومت کی موجودہ معاشی پالیسی نے تاجروں کو تباہ کردیا ہے۔ ٹیکس نظام اتنا پیچیدہ بنادیاگیا ہے کہ آج ہر تاجر پریشان ہے۔ جو پڑھا لکھا ہے وہ تو جیسے تیسے ڈھیر سارے کاغذوں کو سنبھال لیتا ہے مگر ایک ان پڑھ تاجر ان مسائل کے باعث ٹیکس سے بچنے کی کوشش کرتے ہوئے غلط راستہ اپنالیتا ہے اوروہ غلط راستہ بھی حکومت کے اپنے ہی لوگ اسے دکھاتے ہیں جس سے پیسہ سرکار کے بجائے کسی اورکی جیب میں چلا جاتا ہے ۔
مائی ٹائم۔ حکومت نے تاجروں کو بہت زیادہ ریلیف دینے کا وعدہ کیا ہے ‘آپ سے اتفاق کرتے ہیں؟
انورنیازی۔ حکومت کا ریلیف اس وقت ملے گا جب تاجراپنا کاروبار بند کرچکے ہوں گے۔ اس وقت حالات یہ ہےں کہ مال بک نہیں رہا ۔ ایف بی آر سسٹم نے کاروبار اورکاروباریوں کو کہیں کانہیں چھوڑا۔ مہنگائی اتنی بڑھ گئی ہے کہ اب لوگ سوائے ضرورت کی چیزوں کے کچھ خریدنا نہیں چاہتے ہیں۔ اس وقت صرف کھانے پینے اور میڈیسن کا کاروبار عروج پر ہے۔ اس کے بغیر زندگی نہیں اس لیے یہ لوگو ں کی مجبوری ہے ورنہ حالات ایسے ہوگئے ہیں لوگ پہلے چھ ماہ میں جوتے خریدتے تھے اب ایک سال بعد بھی کم ہی دکانوں کا رخ کرتے ہیں۔ ایسے میں کاروباری حضرات کیا کریں گے۔ دکان کا خرچ بھی اب تو جیب سے ادا کیاجارہاہے ۔ مجبورا تاجروں نے پھر کاروبارکو ہی بند کرنا ہے ۔
مائی ٹائم۔ حکومت سے کیا مطالبہ کرنا چاہیں گے؟
انور نیازی۔ حکومت سے کیا مطالبہ کرسکتے ہیں۔ حکومت کا جو دل چاہیے وہ کرتی رہتی ہے اس سے پہلے کبھی اس نے تاجروں کی سنی ہے جو اب سنے گی۔ تاہم پھر بھی حکومت سے درخواست کرتا ہوں کہ کرپشن پر قابو پائے ۔ کرپشن کے خاتمے سے کئی مسائل خود ہی حل ہوجائیں گے۔ ساتھ ہی ٹیکس سسٹم کو آسان بنایاجائے تاکہ ہر شخص اورہر تاجر وقت پر ٹیکس ادا کرسکے۔ٹیکس نظام کی پیچیدگیوں سے عوام ٹیکس دینے کتراتی ہے اورلوگ رشوت دے کر اپنے مسائل حل کروالیتے ہیں‘ اس سے نہ صرف حکومت کو نقصان ہورہاہے بلکہ کاروبار بھی کم ہورہاہے۔ اگر حکومت نے اب بھی اس معاملے میں سنجیدگی نہ دکھائی تو پھر ملک کا اللہ ہی حافظ ہے۔
مائی ٹائم۔ حکومت نے ہر چیز پر ٹیکس لگادیا ہے ‘آپ کیا کہتے ہیں؟
انور نیازی۔ دیکھیں ہمیں ٹیکس دینے میں کوئی عار نہیں۔ جائز ٹیکس جو ہے وہ حکومت ہم سے لے۔ مگر یہاں تو الٹی گنگا بہہ رہی ہے ‘ہر جائز وناجائز چیز پر ٹیکس اتنا لگادیاگیا ہے کہ تاجرو ں کی کمر توڑ دی ہے۔ پھر حکومت ٹیکس کے بدلے کوئی تاجروں کو کوئی پیکج بھی نہیں دے رہی۔ حکومت کو چاہیے کہ ٹیکس کے بدلے تاجروں کو کچھ ریلیف اور پیکج بھی فراہم کرے تاکہ کاروبار بند کرنے کی نوبت نہ آئے۔ ایکسپورٹ ختم ہوچکی ہے اور امپورٹ بڑھ رہی ہے ‘جس سے اخراجات بھی بڑھ رہے ہیں۔ اگر اب بھی حکومت نے اس سلسلے میں فوری اقدامات نہ اٹھائے تو پھربہت دیر ہوجائے گی۔
مائی ٹائم ۔ آپ میانوالی ویلفیئرایسوسی ایشن کے بھی صدر ہیں‘وہ کن بنیادی مقاصد پر کام کررہی ہے؟
انور نیازی۔ جی ہاں میں میانوارلی ویلفیئر ایسوسی کا صدر ہوں اورویلفیئر میانوالی برادری کی فلاح وبہبود کے لیے کام کررہی ہے۔ اس کا اہم مقصد غریب گھرانوں کی بچیوں کی شادی کرانا‘انہیں جہیز فراہم کرنا ہے ۔ اسی طرح ان گھروں میں موجود بچوں کے تعلیمی اخراجات کا بندوبست کرنا بھی میانوالی ویلفیئر ایسوسی ایشن کے مقاصد میں شامل ہے۔ ہیلتھ کے حوالے سے بھی کام کررہے ہیں مستحق مرےضوں کو علاج ومعالجہ کی سہولیات فراہم کرکے جہاں کے مالی معاملات کو خراب ہونے سے بچا رہے ہیں وہیں علاقائی مسائل کے حل کے لیے بھی دن رات کوشاں ہیں۔
مائی ٹائم۔ بلدیہ ٹاﺅن میں ہیلتھ کے معاملات انتہائی خراب ہیں‘ آپ کیا کہیں گے؟
انور نیازی۔ جی یہ بات آپ نے درست کہی ہے۔بلدیہ ٹاﺅن میں ہیلتھ کے معاملات واقعی بہت خراب ہیں۔ ہیلتھ انسپکٹر نے اپنے بیٹر بٹھا رکھے ہیں جو میڈیکل اسٹورزسے بھتہ وصول کرکے انہیں فراہم کرتے ہیں ‘پورے بلدیہ ٹاﺅن میں جعلی لیب کی بھرمار ہے مگر کوئی پوچھنے والا نہیں۔ ابھی کچھ دن پہلے ہی میرے بیٹے کی طبیعت خراب ہوئی۔ ڈاکٹر نے ٹیسٹ لکھ کر دیے جو ایک علاقائی لیبارٹری سے کرائے گئے تاہم جب رپورٹ ڈاکٹر کو دکھائی تو وہ مطمئن نہ ہوئے اور پھر دوبارہ دوسری لیبارٹری ٹیسٹ کرانے کے لیے کہاگیا‘جب دوسری لیبارٹری سے رپورٹ آئی تو دونوں میں انتہائی فرق تھا‘جس کے بعد ہم ضیاءالدین اسپتال چلے گئے اور وہاں پر بھی یہ فرق برقرار رکھا‘ اب میرے بیٹے کا علاج وہیں سے ہورہاہے مگر کہنے کی بات یہ ہے کہ ان جعلی لیبارٹری کی وجہ سے مرض کی تشخیص نہیں ہو پارہی یا پھر جو مرض ہے نہیں اس کی نشاندہی کردی جاتی ہے۔ ایک اچھے بھلے انسان کو بیمار بنانے میں ان لیبارٹریوں کا بہت بڑا ہاتھ ہے ۔ اس سلسلے میں نے کئی متعلقہ اداروں کو درخواست بھی دی ہے لیکن اس پر اب کوئی ایکشن نہیں لیاگیا۔
سندھ میں زچہ اور بچہ کی اموات میں واضح کمی
سندھ میں زچہ اور بچہ کی اموات میں واضح کمی
مائی ٹائم رپورٹ
صوبہ سندھ میں زچہ اور بچہ کی بقا کو بہتر بنانے کے لیے یوایس ایڈ کی جانب سے شروع کیے گئے فلیگ شپ پروگرام میٹرنل اینڈ چائلڈ سروائیول پروگرام کے تحت ہونے والی سرگرمیوں سے حاصل ہونے والے نتائج کو عام کرنے کے لیے ایک تقریب کا اہتمام کیا گیا۔ صوبائی وزیرصحت و بہبود آبادی ڈاکٹر عذرا فضل پیچوہو اور یو ایس ایڈ کے سندھ بلوچستان کے ڈائریکٹر مائیکل ہرشہشن نے کانفرنس سے خطاب کیا۔ کانفرنس میں صحت کے ذرائع تک رسائی، خاندانی منصوبہ بندی کی خدمات کی دستیابی اور ان کے استعمال کے لیے یو ایس ایڈ کے پروگرام کی خدمات پر روشنی ڈالی گئی۔ مائیکل ہرشہشن نے کہا، ” میں نہ صرف پروگرام کی اب تک کی کامیابیوں سے بلکہ احداف حاصل کرنے کے لیے صوبائی حکومت کی مخلصانہ اقدام سے بھی بہت متاثر ہوں، مجھے یقین ہے کہ ہم مل کر سندھ میں بچہ و زچہ کی اموات کو روکنے کے مقصد میں کامیابی حاصل کرلیںگے۔“ پچھلے تین سالوں میں میٹرنل اینڈ چائلد سروائیول پروگرام نے صحت اور بہبود آبادی کی وزارتوں کے ساتھ مل کر تولیدی، زچہ بچہ اور بچوں کی صحت کے شعبوں میں موثر منصوبے متعارف کرانے کے ساتھ ساتھ ایسے منصوبوں کی ہر طریقے سے حمایت بھی کی تاکہ حتمی مقصد کو حاصل کرکے زچہ و بچہ کی شرح اموات کو کم کیا جاسکے، ان کوششوں میں کلینیکل مانیٹرنگ اور مریض کے ساتھ فالو اپ کرنے کے لیے مددی مواد کا پیکیج بنانا، ماسٹر ٹرینرز کی تربیت، خواتین کی علاج معالجے کے معیاری طریقوں تک رسائی کو بہتر بنانا شامل ہے۔ پروگرام کے تحت بہبود آبادی کے افسران کی تربیت کرنے کے ساتھ ساتھ ان کے لیے رہنما ہدایات اور جانچ پڑتال کا طریقہ کار بھی وضع کیا۔ اس کے علاوہ حکومت کے مخصوص صحت مراکز میں حمل کے دوران ماں اور بچے کی صحت کے بارے میں مشاورتی مراکز بنائے گئے تاکہ لوگوں کو خاندانی منصوبہ بندی کے بارے میں معلومات اور مشورے دیے جاسکیں۔ پروگرام کے لیے امریکی حکومت نے 5.6 ملین ڈالر (تقریبا 896 ملین پاکستانی روپے)کی فنڈنگ کی۔
پاکستان میں 10 لاکھ کیسز میں سے 272 میں زچہ بچہ کی اموات واقع ہوجاتی ہیں جبکہ بلوچستان میں یہ شرح کئی گنا زیادہ ہے جہاں ایک لاکھ حاملہ خواتین میں سے 785 زندگی کی بازی ہار جاتی ہیں۔ یہ تعداد رجسٹر ڈکیسز کی ہے۔ جبکہ وہ تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے جو رجسٹریشن سے رہ جاتے ہیں۔بلوچستان حکومت نے مالی سال 2018-19کے لیے صحت کا بجٹ 19.4 بلین رکھا تھا۔ جس میں 14,419,518,000 روپے تنخواہ کی مد میں اور باقی پانچ ارب روپے کے آس پاس انتظامی معاملات کی مد میں رکھے گئے۔ بلوچستان میں صحت کے شعبے کے لیے مختص کیے جانے والے تھوڑے بہت بجٹ میں سے ایک خطیر رقم تنخواہوں کی مد میں چلی جاتی ہے۔ لیکن اس کے باوجود بلوچستان میں اس شعبے کی افرادی قوت کے خلا کو ہی پ ±ر نہیں کیا جاسکا۔
اٹھارویں ترمیم کے بعد شعبہ صحت صوبوں کے پاس آچکا ہے۔ اب یہ صوبائی حکومت پر منحصر ہے کہ وہ صحت کے شعبے میں اصلاحات لا کر اسے بہتری کی جانب گامزن کرے۔ لیڈی ہیلتھ وزیٹرز، لیڈی میڈیکل ایکسپرٹس اور لیڈی نرسز کی کمی کو پورا کرنے کے لیے نرسنگ اسکولوں کا قیام عمل میں لائے۔ یہ شعبہ بلوچستان کی سطح پر ناپید ہے۔ بولان میڈیکل کالج کے علاوہ اس وقت دیگر چار میڈیکل کالجز کا قیام عمل میں لایا جا چکا ہے۔ ان اداروں کے زیراہتمام نرسنگ اسکولز قائم کرکے لیڈی ہیلتھ اسٹاف کی کمی کو پورا کیاجا سکتا ہے۔ صحت کے مراکز کو وہ آلات اور مشینیں مہیا کیے جائیں جو شعبہِ زچہ بچہ کی ضروریات کو پورا کر سکے۔ اور سب سے اہم بات یہ کہ حالیہ دنوں سینٹ سے پاس ہونے والے ”18سال سے کم عمر شادی پر پابندی“ بل کا اطلاق کرکے صوبے بھر میں زچہ بچہ شرح اموات میں کمی لائی جا سکتی ہے۔
مائی ٹائم رپورٹ
صوبہ سندھ میں زچہ اور بچہ کی بقا کو بہتر بنانے کے لیے یوایس ایڈ کی جانب سے شروع کیے گئے فلیگ شپ پروگرام میٹرنل اینڈ چائلڈ سروائیول پروگرام کے تحت ہونے والی سرگرمیوں سے حاصل ہونے والے نتائج کو عام کرنے کے لیے ایک تقریب کا اہتمام کیا گیا۔ صوبائی وزیرصحت و بہبود آبادی ڈاکٹر عذرا فضل پیچوہو اور یو ایس ایڈ کے سندھ بلوچستان کے ڈائریکٹر مائیکل ہرشہشن نے کانفرنس سے خطاب کیا۔ کانفرنس میں صحت کے ذرائع تک رسائی، خاندانی منصوبہ بندی کی خدمات کی دستیابی اور ان کے استعمال کے لیے یو ایس ایڈ کے پروگرام کی خدمات پر روشنی ڈالی گئی۔ مائیکل ہرشہشن نے کہا، ” میں نہ صرف پروگرام کی اب تک کی کامیابیوں سے بلکہ احداف حاصل کرنے کے لیے صوبائی حکومت کی مخلصانہ اقدام سے بھی بہت متاثر ہوں، مجھے یقین ہے کہ ہم مل کر سندھ میں بچہ و زچہ کی اموات کو روکنے کے مقصد میں کامیابی حاصل کرلیںگے۔“ پچھلے تین سالوں میں میٹرنل اینڈ چائلد سروائیول پروگرام نے صحت اور بہبود آبادی کی وزارتوں کے ساتھ مل کر تولیدی، زچہ بچہ اور بچوں کی صحت کے شعبوں میں موثر منصوبے متعارف کرانے کے ساتھ ساتھ ایسے منصوبوں کی ہر طریقے سے حمایت بھی کی تاکہ حتمی مقصد کو حاصل کرکے زچہ و بچہ کی شرح اموات کو کم کیا جاسکے، ان کوششوں میں کلینیکل مانیٹرنگ اور مریض کے ساتھ فالو اپ کرنے کے لیے مددی مواد کا پیکیج بنانا، ماسٹر ٹرینرز کی تربیت، خواتین کی علاج معالجے کے معیاری طریقوں تک رسائی کو بہتر بنانا شامل ہے۔ پروگرام کے تحت بہبود آبادی کے افسران کی تربیت کرنے کے ساتھ ساتھ ان کے لیے رہنما ہدایات اور جانچ پڑتال کا طریقہ کار بھی وضع کیا۔ اس کے علاوہ حکومت کے مخصوص صحت مراکز میں حمل کے دوران ماں اور بچے کی صحت کے بارے میں مشاورتی مراکز بنائے گئے تاکہ لوگوں کو خاندانی منصوبہ بندی کے بارے میں معلومات اور مشورے دیے جاسکیں۔ پروگرام کے لیے امریکی حکومت نے 5.6 ملین ڈالر (تقریبا 896 ملین پاکستانی روپے)کی فنڈنگ کی۔
پاکستان میں 10 لاکھ کیسز میں سے 272 میں زچہ بچہ کی اموات واقع ہوجاتی ہیں جبکہ بلوچستان میں یہ شرح کئی گنا زیادہ ہے جہاں ایک لاکھ حاملہ خواتین میں سے 785 زندگی کی بازی ہار جاتی ہیں۔ یہ تعداد رجسٹر ڈکیسز کی ہے۔ جبکہ وہ تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے جو رجسٹریشن سے رہ جاتے ہیں۔بلوچستان حکومت نے مالی سال 2018-19کے لیے صحت کا بجٹ 19.4 بلین رکھا تھا۔ جس میں 14,419,518,000 روپے تنخواہ کی مد میں اور باقی پانچ ارب روپے کے آس پاس انتظامی معاملات کی مد میں رکھے گئے۔ بلوچستان میں صحت کے شعبے کے لیے مختص کیے جانے والے تھوڑے بہت بجٹ میں سے ایک خطیر رقم تنخواہوں کی مد میں چلی جاتی ہے۔ لیکن اس کے باوجود بلوچستان میں اس شعبے کی افرادی قوت کے خلا کو ہی پ ±ر نہیں کیا جاسکا۔
اٹھارویں ترمیم کے بعد شعبہ صحت صوبوں کے پاس آچکا ہے۔ اب یہ صوبائی حکومت پر منحصر ہے کہ وہ صحت کے شعبے میں اصلاحات لا کر اسے بہتری کی جانب گامزن کرے۔ لیڈی ہیلتھ وزیٹرز، لیڈی میڈیکل ایکسپرٹس اور لیڈی نرسز کی کمی کو پورا کرنے کے لیے نرسنگ اسکولوں کا قیام عمل میں لائے۔ یہ شعبہ بلوچستان کی سطح پر ناپید ہے۔ بولان میڈیکل کالج کے علاوہ اس وقت دیگر چار میڈیکل کالجز کا قیام عمل میں لایا جا چکا ہے۔ ان اداروں کے زیراہتمام نرسنگ اسکولز قائم کرکے لیڈی ہیلتھ اسٹاف کی کمی کو پورا کیاجا سکتا ہے۔ صحت کے مراکز کو وہ آلات اور مشینیں مہیا کیے جائیں جو شعبہِ زچہ بچہ کی ضروریات کو پورا کر سکے۔ اور سب سے اہم بات یہ کہ حالیہ دنوں سینٹ سے پاس ہونے والے ”18سال سے کم عمر شادی پر پابندی“ بل کا اطلاق کرکے صوبے بھر میں زچہ بچہ شرح اموات میں کمی لائی جا سکتی ہے۔
6ستمبر یوم دفاع اورکشمیریوں سے اظہار یکجہتی کا دن
” اے مرد مجاہد جاگ ذرا اب وقت شہادت ہے آیا“
6ستمبر یوم دفاع اورکشمیریوں سے اظہار یکجہتی کا دن
اس مٹی میں شہیدوں کا لہو شامل ہے ‘جب بھی وطن کو ضرورت پڑی اس کے بیٹوں نے لبیک کہا
قیام پاکستان سے لے کر بقاءپاکستان کا سفر ہمارے شہدا کی قربانیوں سے سجا ہوا ہے،آرمی چیف
مائی ٹائم رپورٹ
کراچی سمیت ملک بھرمیں 6 ستمبر کویوم دفاع پاکستان کشمیریوں کے ساتھ یکجہتی کے طور پرمنایا گیا جب کہ مرکزی تقریب جی ایچ کیو میں ہوئی۔وزیر اعظم عمران خان نے یوم دفاع پر ملک بھر میں یوم یکجہتی کشمیر منانے کی ہدایت کی، جس پر سرکاری اداروں اور صوبائی دارالحکومتوں میں یوم دفاع اور کشمیر کی مختلف تقریبات منعقد ہوئیں۔مزار قائد اور مزار اقبال پر گارڈز کی تبدیلی کی تقریب ہوئی۔ مزار قائد پر فضائیہ کے کیڈٹس جبکہ مزار اقبال پر پاکستان رینجرز پنجاب کے دستے نے سلامی دی اور گارڈز کی ذمہ داری سنبھالی۔ میانی صاحب قبرستان میں میجر شبیر شریف شہید کی قبر پر پھول چڑھائے گئے اورفاتحہ خوانی ہوئی، پاک فوج کے جوانوں نے سلامی دی۔یوم دفاع پاکستان کی مرکزی تقریب جی ایچ کیو راولپنڈی میں ہوئی جس میں شہدا کو سلام پیش کیا گیا۔ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے یادگار شہدا پر حاضری دی، پھولوں کی چادر چڑھائی اور حاضرین سے خطاب کیا۔ تقریب میں 1965ءکی جنگ کی دستاویزی فلم بھی دکھائی گئی۔
برکی علاقہ میں میجر عزیز بھٹی شہید، باٹا پور اور مناواں میں 1965ءکی جنگ میں جانوں کا نذرانہ پیش کرنے والے پاک فوج کے شہدا کی یادگاروں پر حکومتی، فوجی شخصیات اور عام شہریوں کی طرف سے پھول چڑھائے گئے اور فاتحہ خوانی کی گئی۔پاکستان ایئر فورس کے زیر اہتمام ائیر بیس لاہور میں پاک فضائیہ کے زیر استعمال جنگی طیاروں اور دیگر سازو سامان کی نمائش ہوئی جبکہ ایئر فورس کے جدید طیاروں نے فلائی مارچ کیا۔ وفاقی وزرا، مختلف حکومتی اور سیاسی شخصیات شہداءکے گھر گئیں اور ان کے اہل خانہ سے ملاقات کی۔
جی ایچ کیو مےں ہونے والی یوم دفاع کی مرکزی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے آرمی چیف جنرل قمرجاوید باجوہ کا کہنا تھا کہ کشمیرتکمیل پاکستان کا نا مکمل ایجنڈا ہے اورپاکستان کشمیرکوکبھی بھی حالات کے رحم وکرم پرتنہا نہیں چھوڑے گا۔آرمی چیف جنرل قمرجاوید باجوہ نے جی ایچ کیومیں یوم شہدا کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ قیام پاکستان سے لے کر بقاءپاکستان کا سفر ہمارے شہدا کی قربانیوں سے سجا ہوا ہے، پاکستان کی بنیادوں میں شہیدوں کا لہو شامل ہے، جب بھی ضرورت پڑی وطن کے بیٹوں نے لبیک کہا، جب تک ہمارے پاس ایسے والدین موجود ہیں جو وطن پر جان قربان کرنے والے سپوت پیدا کرتے ہیں تب تک پاکستان کو کوئی قوت نقصان نہیں پہنچا سکتی۔ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے کہا کہ پاکستان امن و سلامتی کا پیغام دیتا ہے اوریہ پیغام پورے خطے اور دنیا کے لیے ہے۔
آرمی چیف نے اپنے خطاب میں کشمیرمیں جاری بربریت سے متعلق کہا کہ کشمیرمیں ریاستی دہشتگردی عروج پرہے، کشمیر تکمیل پاکستان کا نا مکمل ایجنڈا ہے۔ کشمیر پاکستان کی شہہ رگ ہے، پاکستان کشمیرکوکبھی بھی حالات کے رحم و کرم پرتنہا نہیں چھوڑے گا جب کہ کشمیریوں پر ظلم ہمارے صبر کا امتحان ہے۔ کشمیر کا مسئلہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل ہونا چاہیے، کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں عالمی تنظیموں کیلیے لمحہءفکریہ ہیں۔کراچی میں مختلف اسکولوں ‘کالجوں اورسماجی وسیاسی شخصیات کی جانب سے بھی یوم دفاع کے موقع پر تقریبات کا اہتمام کیاگیا‘جس میں طلبہ وطالبات کی جانب سے ٹیبلو پیش کیے گئے
6ستمبر یوم دفاع کے طورپر ہم اس لیے مناتے ہیں کہ پاکستان پر1965ءمیں ہندوستان کی طرف سے جنگ کا تھوپا جانا پاکستانی قوم کے ریاستی نصب العین دوقومی نظریہ،قومی اتحاد اور حب الوطنی کو بہت بڑا چیلنج تھا۔ جسے جری قوم نے کمال و قار اور بے مثال جذبہ حریت سے قبول کیا اور لازوال قربانیوں کی مثال پیش کر کے زندہ قوم ہونے کاثبوت دیا۔ دوران جنگ ہر پاکستانی کو ایک ہی فکر تھی کہ ا ±سے دشمن کا سامنا کرنا اور کامیابی پانا ہے۔جنگ کے دوران نہ تو جوانوں کی نظریں دشمن کی نفری اور عسکریت طاقت پر تھی اور نہ پاکستانی عوام کا دشمن کو شکت دینے کے سوا کوئی اورمقصد تھا۔ تمام پاکستانی میدان جنگ میں کود پڑے تھے۔اساتذہ، طلبہ، شاعر، ادیب، فنکار، گلوکار ، ڈاکٹرز، سول ڈیفنس کے رضا کار ،مزدور،کسان اور ذرائع ابلاغ سب کی ایک ہی دھن اور آواز تھی کہ” اے مرد مجاہد جاگ ذرا اب وقت شہادت ہے آیا“ستمبر 1965ءکی جنگ کا ہمہ پہلو جائز لینے سے ایک حقیقی اور گہری خوشی محسوس ہوتی ہے کہ وسائل نہ ہونے کے باوجود اتنے بڑے اور ہر لحاظ سے مضبوط ہندوستان کے مقابلے میں چھوٹے سے پاکستان نے وہ کون سا عنصر اورجذبہ تھا، جس نے پوری قوم کو ایک سیسہ پلائی ہوئی نا قابل عبور دیوار میں بدل دیا تھا۔ مثلاً ہندوستان اور پاکستان کی مشترکہ سرحد”رن آف کچھ“ پر طے شدہ قضیہ کو ہندوستان نے بلا جواز زندہ کیا فوجی تصادم کے نتیجہ میں ہزیمت اٹھائی تو یہ اعلان کردیا کہ آئندہ ہندوستان پاکستان کے ساتھ جنگ کے لئے اپنی پسند کا محاذ منتخب کرے گا اس کے باوجود پاکستان نے ہندوستان سے ملحقہ سرحدوں پر کوئی جارحانہ اقدام نہکیے تھے۔ صرف اپنی مسلح افواج کومعمول سے زیادہ الرٹ کررکھا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ چھ ستمبر کی صبح جب ہندوستان نے حملہ کیا تو آناً فاناً ساری قوم، فوجی جوان اور افسر سارے سرکاری ملازمین جاگ کر اپنے اپنے فرائض کی ادائیگی میں مصروف ہوگئے۔ صدر مملکت فیلڈ مارشل محمد ایوب خان کے ایمان افروز اور جذب مرد حجاہد سے لبریزقوم سے خطاب کی وجہ سے ملک اللہ اکبر اورپاکستان زندہ باد کے نعروں سے گونج ا ±ٹھا۔فیلڈ مارشل ایوب خان کے اس جملے ”پاکستانیو! اٹھو لا الہ الا اللہ کا ورد کرتے ہوئے آگے بڑھو اوردشمن کو بتا دو کہ اس نے کس قوم کو للکارا“ان کے اس خطاب نے قوم کے اندر گویا بجلیاں بھردی تھیں۔ پاکستان آرمی نے ہر محاذ پر دشمن کی جارحیت اور پیش قدمی کو حب الوطنی کے جذبے اورپیشہ وارانہ مہارتوں سے روکا ہی نہیں، انہیں پسپا ہونے پر بھی مجبور کردیا تھا۔ ہندوستانی فوج کے کمانڈر انچیف نے اپنے ساتھیوں سے کہا تھا کہ وہ لاہور کے جم خانہ میں شام کو شراب کی محفل سجائیں گے۔ ہماری مسلح افواج نے جواب میں کمانڈر انچیف کے منہ پر وہ طمانچے جڑے کہ وہ مرتے دم تک منہ چھپاتا پھرا۔ لاہور کے سیکٹر کو میجر عزیز بھٹی جیسے سپوتوں نے سنبھالا، جان دے دی مگر وطن کی زمین پر دشمن کا ناپاک قدم قبول نہ کیا۔
Subscribe to:
Comments (Atom)









